سندھ میں خواتین پر ہونے والے تشدد اور قتل و زخمی کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ نے معاشرے کے سنجیدہ اور حساس طبقے کو فکرمند کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع شہید بے نظیر آباد میں بھی کاروکاری کے الزام پر معصوم اور گھریلو خواتین کے قتل کے واقعات تیزی سے جاری ہیں، جب کہ ان بے گناہ اور معصوم خواتین اور بچیوں کے قتل کے واقعات کی رپورٹ درج ہونے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے بارے میں برادری ،قبائلی سسٹم کی مضبوطی اور جبر کا نظام ہے اور اس بارے میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ کا جرگہ سسٹم بھی ہے، جس میں ونی،کارو کے خاندان کی معصوم بچیوں کو بدلے میں جبری شادی کرانا، ڈنڈ چٹی میں لاکھوں کروڑوں روپیہ کی ادائیگی، بلکہ زمینیں تک لکھوانا شامل ہیں۔
اس بارے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کاروکاری کے الزام میں قتل ہونے والی خواتین اور مردوں کی اکثیریت متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ سندھ کے حکم ران اور امیروں کے علاوہ سرداروں، میروں، پیروں اور وڈیروں کے بچے اور بچیوں کے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، جب کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کاروکاری کے نام پر اکثر قتل ہونے والے افراد کے قتل کے محرکات غیرت کے علاوہ دوسرے ہوتے ہیں، لیکن سزا سے بچنے کے لیے اور اپنے قبیلہ برادری اور خاندان کی ناک اونچی کرنے کی جاہلانہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے بھی اس قبیع فعل کو اختیار کرکے زندگیوں کے چراغ بجھا دیے جاتے ہیں کارو کاری کا ایک وحشتناک واقعہ قاضی احمد میں پیش آیا، جس میں قبیلے کے دو افراد نے دوسری برادری کے نوجوان سے مبینہ طور پر موبائل فون پر بات کرنے کے الزام میں گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے سات اور نو سالہ بچیوں کو دوڑا دوڑا کر قتل کردیا، جب کہ بچیوں کے والد کی مدعیت میں قاضی احمد تھانے میں درج کرائی گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بچیوں کی ماں اور وہ یعنی والد ملزمان کو جو کہ دور کے رشتے دار ہیں، ان معصوم بچیوں کو جو کہ نا بالغ اور بے گناہ تھیں، کو قتل سے روکنے کی کوشش اور مقتول بچیوں نے چارپائیوں کے نیچے اور سامان کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، لیکن نام نہاد غیرت کے جنون میں مبتلا دو قاتلوں جن کے سر پر خون سوار تھا، نے پستول سے فائر کرکے بچیوں کو قتل کردیا اور تماشا یہ ہے کہ گاؤں کے جس لڑکے کے ساتھ موبائل فون پر بات کرنے کے الزام میں سات اور نو سالہ بچیوں کو قتل کیا، اس لڑکے کی برادری کے ممبر صوبائی اسمبلی نے مقتول بچیوں کے والد اور رشتے داروں کو لڑکے کی طرف سے صفائی دے کر مزید خون خرابہ کو روک دیا، جب کہ اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا کہ ملزمان نے ان بے گناہ بچیوں کا قتل کسی سازشی ذہن کی ایماء پر اس لیے کیا تھا کہ لڑکے کے قبیلے سے کاریوں کے بدلے میں کارے لڑکے کو قتل کرکے دونوں قبائیل میں قتل وزارت گری کا بازار گرم کرکے ضلع کے امن وامان کو تہہ و بالا اور اس کے بعد سرداروں کی مداخلت اور ضلع شہید بے نظیر آباد جو کہ اب تک سرداری نظام سے بچا ہوا ہے، اس کے دو قبائل میں صلح کے نام پر وہی کھیل کھیلا جاتا جو کہ بلوچستان اور اس سے ملحقہ اپر سندھ کے اضلاع میں کھیلا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں اس افسوس ناک واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بچیوں کے قتل کے بعد ملزمان کے خلاف رپورٹ درج کرانے پر قبیلے کے افراد ان بچیوں کے والد کے دشمن ہو گئے اور ان کی دھمکیوں اور مقدمہ واپس نہ لینے اور انکار کرنے پر خاندان اور قبیلے کی ناک کٹوانے کا الزام لگاکر مقتول بچیوں کے اہل خانہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ قتل کی دہمکیوں سے تنگ آکر بچیوں کا والد اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسروں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہے اور سوشل میڈیا اس کی دہائیاں ممتا کا درد رکھنے والوں کے دل دہلا رہی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے واقعات میں ساٹھ میل تھانے کے گاؤں اور نواب شاہ شہر کی رفیق کالونی میں پیٹرول اور تیزاب گردی کے دو واقعات میں دو شادی شدہ اور دو بچیوں کی ماؤں کے چہرے مسخ کرکے زندگی بھر کا روگ لگا دیا گیا۔
ساٹھ میل پولیس کے مطابق شوہر نے اپنی بیوی جو کہ دو بچیوں کی ماں تھی، پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا کر جھلسا دیا کہ وہ اس کو ناپسند اور دوسری شادی کرنا چاہتا تھا، جب کہ رفیق کالونی میں شوہر کے ہاتھوں تیزاب گردی کا شکار لاتوں کا جرم یہ ٹھرا کہ وہ اپنی بہن کی شادی میں شرکت پر اصرار کررہی تھی اور اس پر مشتعل ہوکر شوہر نے بیوی کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا، جب کہ اس روح فرسا واقعہ کا دردناک پہلو یہ ہے کہ بیوی پر تیزاب انڈیلنے کے بعد اس کو کمرے میں بچیوں کے ساتھ بند کردیا اور جب خاتون اور بچیوں کی چیخیں بلند ہوئیں تو اہل محلہ نے پولیس کی مدد سے خاتون کو بازیاب کرایا اور اس کے شوہر کے خلاف تیزاب گردی اور اس کی ماں اور باپ کے خلاف جرم کی معاونت کا پرچہ درج کرکے عدالت کے حکم پر جیل بھجوایا۔
جب کہ قاضی احمد میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی جو کہ ایک بچی کی ماں بن چکی تھی اور رشتے داروں کی نارضگی کے باعث قتل کے خوف سے کراچی رہائش پزیر تھے، حالت نارمل جان کر جوں ہی گاؤں جانے کے لیے بس سے اتر ہوکر ہوٹل پر ناشتہ کرکے باہر نکلے تو اطلاع ملنے پر خون کے پیاسوں نے بھرے بازار میں پسند کی شادی کرنے والے صدیق کھوسو کو بیوی اور بچی کے سامنے گولیوں سے بھون دیا۔ اس دوران بچی اپنے والد اور بیوی اپنے شوہر کی زندگی کی بھیک مانگتی رہی۔
اس سلسلے خاتون کا کہنا تھا کہ انہوں نے کراچی سے بس کے ذریعہ آنے کے بعد تھانے پہنچ کر موجود سپاہی سے گاؤں تک لے جانے کے لیے مدد مانگی۔ تاہم خاتون کے مطابق سپاہی نے معذرت کی اور مایوس ہوکر گاؤں جانے سے پہلے ہوٹل پر ناشتہ کرکے باہر نکلے تو قاتل پہنچ چکے تھے اور پھر لوگوں کے ہجوم کے سامنے صدیق کھوسو کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا، جب کہ لوگ کھڑے تماشہ دیکھتے رہے اور پولیس رپورٹ کے مطابق ملزمان کوئی غیر نہیں بلکہ خاتون کے گھر کے افراد اور اپنی بیٹی اور بہن کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے پر ناخوش تھے۔ تاہم اس سلسلے میں گھمبر مسائل ان حکومتی اداروں کو بھی درپیش ہیں جو کہ کاروکاری کاشکار ہونے سے بچ جانے والی اور طلاق یافتہ خواتین کو تحفظ دینے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر وومین ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ شہید بینظیرآباد نسیم حسن مستوئی نے اس بارے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی روک تھام اور دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے ایڈیشنل ڈائریکٹر سوشل ویلفئیر محمد صابر قریشی،ڈی آئی جی آفیس شکایت سیل انچارج ممتاز علی بروہی،ایس ایچ او وومین تھانہ مریم بھرٹ،اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر محمد علی عباسی،انچارج وومین پروٹیکشن سنٹر نوشہروفیروز عابدہ پروین،نذہت ،اسسٹنٹ ڈپٹی ڈائریکٹر وومین ڈیولپمنٹ فرحانہ صالح،شبانہ اور دیگر افسران کی مشاورت سے پلان ترتیب دیا اس سلسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر وومین ڈیولپمنٹ نسیم حسن مستوئی نے جنگ کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین خصوصی طور پر گھریلو خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات بہت کم رپورٹ ہورہے ہیں، جس کی وجہ خواتین کو اپنے حقوق کسے متعلق کم معلومات کے ساتھ ساتھ ناخواندگی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے گھریلو پریشانیوں سے تنگ ہوکر گھروں سے نکلنے والی خواتین کی مدد کے لیے ہر ضلع و تعلقہ سطح پر سیف ہاؤسز قائم کیے گئے ہیں، تاکہ ان متاثرہ خواتین کو سہارا مل سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف سیکریٹری کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں سیف ہاؤسز کی بہتری کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں وومین ڈیولپمنٹ،پولیس،سوشل ویلفئیر اورسماجی تنظیموں کے نمائندے کو شامل کیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود بھی خواتین کی حالت زار کو بہتر بنانے میں خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ خواتین کی موقع پر مدد نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل بڑھ جاتے ہیں، جن کو حل کرنے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔
خواتین کے مسائل کو حل کرنا اور پیش آنے والی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ ضلع انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہےاور امید ہے کہ گھریلو تشدد اور پریشانیوں کو منہ دینے والی خواتین کی مدد کے لیے اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دارلامان اور سیف ہاؤسز میں سہولیات کی کمی ہے ،جس کو ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
اس موقع پر ایس ایچ او وومین پولیس مریم بھرٹ نے جنگ کو بتایا کہ گزشتہ برس گھریلو تشدد کی 25 اور اس سال 11 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں، جب کہ کم عمر کی شادیاں کرنے والوں کے خلاف 5 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ مریم بھرٹ کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے وومن پولیس اسٹیشن کے قیام اور خواتین پولیس کی موجودگی مظلوم خواتین کے لیے باعث طمانیت ثابت ہورہی ہے۔ تاہم دوسری جانب ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کا جائداد میں حصہ غصب کرنے اور انہیں حقوق سے محروم کرنے کے لیے غیرت کا بہانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین کو مزید سخت کرنے اور صنف نازک کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے ۔