گلگت بلتستان میں 15نومبر2020ء کو ہونے والے انتخابات نہ صرف خطّے کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، بلکہ آزمائشوں اور مشکلات میں گِھری حکومت کے لیےداخلی سطح پر دَرپیش چیلنجزمیں ایک بڑے چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیںکہ انہی انتخابات سے گلگت بلتستان کو پاکستان کے نئے صوبے کی حیثیت دینے کافیصلہ مشروط ہے، جس کے لیےآئینی ترمیم ایک قانونی تقاضا ہے اور جو حکومت اور اپوزیشن کی ہم آہنگی کے بغیر پورا نہیں ہوسکتاکہ آئینی ترمیم کے لیےدرکارمطلوبہ تعداد بہر حال حکومت کے پاس موجود نہیں ۔
لہٰذا اسے حکومت کے لیے ایک دشوار گزارمرحلہ قرار دیاجار ہاہے۔اسی سبب گزشتہ ماہ ابتدائی پیش رفت کے طور پر چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاویدباجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی ،لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر زاور کچھ حکومتی وزراکو خصوصی طور پر ملاقات کے لیے مدعو کیا تھا۔ گرچہ اس میٹنگ کا بنیادی مقصد گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے حاصل کرنا تھا، لیکن یہ اُس وقت ایک مختلف صورتِ حال اختیار کرگئی، جب گفتگو کا آغازاصل موضوع یعنی گلگت بلتستان میں انتخابات اور صوبہ بنانے پر تو ہوا، لیکن اپوزیشن کے سیاست دانوں کو وزیرِاعظم عمران خان کی عدم موجودگی میں مُلک کی دو طاقت وَر شخصیات سے براہِ راست گفتگو کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ گلگت بلتستان میںانتخابات کے حوالے سے سب سے زیادہ تحفّظات بلاول بھٹو زرداری کےتھے، جو وہاں بار بارشفّاف انتخابات کی بات کررہے تھے ۔
جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان میں جو سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت اور عوام میں ایک مقام رکھتی ہیں ان میں پاکستان پیپلز پارٹی سرِ فہرست ہے۔ ان کے مسلسل اصرار پر ایک حکومتی وزیر نے انتہائی اعتماد کے ساتھ اس بات کی یقین دہانی کروانے کی بھی کوشش کی کہ انتخابات ہر صُورت شفّاف ہی ہوں گے، خواہ کوئی بھی جیتے یاہارے جس پر بلاول بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ ہمیں یہ یقین دَہانی آپ سے نہیں‘‘پھر ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’ان سے چاہیے۔‘‘ اس موقعےپر جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ہمیں کسی ایسے مسئلے میں نہ ڈالیں ،جس سے فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کا تاثر پیدا ہو۔‘‘اس نشست میں اپوزیشن رہنمائوں نے نیب کی جانب سے مقدمات، گرفتاریوں سمیت حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف مبیّنہ طور پر انتقامی کارروائیوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا ،جن کا عسکری قیادت نے مؤثر جواب دیا۔
گلگت بلتستان میں انتخابات اور نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر لانے کے لیے بلائی گئی کانفرنس،اجلاس یا میٹنگ کے چار دن بعد ہی جو انکشافات اور بیانات سامنے آئے،اس نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا (جن کی تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں )۔ جس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم ، نواز شریف کو لندن سے یہ ہدایات جاری کرنی پڑیںکہ آئندہ پارٹی کا کوئی رکن عسکری قیادت سے کسی بھی سطح پر کوئی ملاقات نہ کرے۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بھی کہا کہ’’ حالیہ واقعات سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چُھپی رہتی ہیں اور کس طرح بعض کی تشہیر کر کے مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں، لیکن یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے۔‘‘ ابتدائیے میں اس صورتِ حال کا تذکرہ کرنے کا مقصد ان مشکلات اور پیچیدگیوں کی طرف توجّہ مبذول کروانا ہے ،جو اس سارے معاملے میں رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہیں۔ پھر صرف یہی نہیں ، دونوں طرف کے کشمیری شہری بھی اس معاملے میں خود کوا سٹیک ہولڈرز قرار دیتے ہیں۔
تاریخی طور پر گلگت بلتستان کو ریاستِ کشمیر کی نوابی ریاست کا درجہ حاصل تھا۔تقسیم ِہند کے وقت یہاں کے عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے مقامی فوج کے خلاف بغاوت بھی کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکومتِ پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے الحاق سے متعلق رائے شماری کروانی تھی، جس کی بنیاد پر اِن علاقوں کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ طے پانا تھا، لیکن سیاسی اور بین الاقوامی مصلحتوںکی بنیاد پر یہ کام تاحال مکمل نہیں ہو پایا۔بنیادی طور پر گلگت بلتستان ریاست جمّوں وکشمیر کا حصّہ تھا۔ لیکن 1948 ءمیں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیرِ کنٹرول آ گیا۔
تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطّہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوب صُورت وادیوں اورپھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنّت سے کم نہیں، لیکن قدرتی حُسن کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ممالک ایٹمی طاقت ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ گلگت بلتستان، سی پیک کا دروازہ ہے۔ یہاں پاکستان کی جانب سے صوبائی نظام تو نافذ کیا گیا ہے، جیسا کہ ان کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے، لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں ،جو مُلک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔
پہلے یہاں’ ’اسٹیٹ سبجیکٹ رُول‘‘ نام کا قانون نافد تھا، جس کے تحت صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عُہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔ لیکن 70 ءکی دَہائی میں سابق وزیر اعظم ،ذوالفقار علی بھٹو کے دَورِ حکومت میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا، لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے مطالبہ ہےکہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے، جب کہ کشمیری اس مطالبے کی پُرزور مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازع علاقےکا حصّہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے، جب تک کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصوابِ رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ مؤثر ہو گی، جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں پاکستان مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے سے کتراتا رہا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو نیا عبوری صوبہ بنانے کا اشارہ تو دیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا صوبہ کس حد تک باقی چار صوبوں کی طرح ہو گا۔چوں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ مُلک کی سلامتی ومفادات کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہےکہ پاکستان سی پیک کا راستہ محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ تو اس کے لیےضروری ہے کہ مقامی لوگوں کے تحفّظات ہر صُورت دُور کیے جائیں۔ سیاسی غیر یقینی کی فضا ختم ہو۔ غالب امکان یہ ہے کہ اسے ضم کرتے ہوئے ’’عبوری‘‘ یا ’’عارضی قسم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوںگے،تاکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔ مگر یہ طے ہے کہ کشمیری اس پیش رفت سے زیادہ خوش نہیں ہوں گے،لہٰذا پاکستان پوری کوشش کرے گا کہ انہیں اعتماد میں لے۔
گلگت بلتستان عمومی طور پرشمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے جنوب میں آزادکشمیر ،مغرب میں کے پی کے ،شمال میں واخان کوریڈوراورمشرق میں چِین واقع ہے۔اقوامِ متّحدہ کی قرارداد کے مطابق یہ کشمیر کا حصّہ ہے، لیکن گلگت کے عوام اس بات سے انکاری ہیں۔ 7ویں سے 19ویں صدی عیسوی تک مختلف قوموں نے اس علاقے پرحکومت کی، جن میں مغلوٹ،عیاشو،تراخان وغیرہ شامل تھے۔1840 ءمیں اس علاقے پرڈوگروں نے قبضہ کرلیاپھر 1935 ءمیںانگریزوں نے اسےڈوگروں سے لیز پر حاصل کیا اور انتظامی اکائی قرار دےکر کرنل ڈیورنڈکواپناپولیٹکل ایجنٹ مقرر کر دیا، مگربرّ ِ صغیر کی تقسیم کے وقت مہاراجا جمّوں کشمیر کو واپس کرگئے۔جمّوں وکشمیر اسمبلی کے انتخابا ت باقاعدگی سے منعقد ہورہے تھے۔
گلگت سے پانچ نمائندوں کی جمّوں وکشمیراسمبلی میں نمائندگی تھی، لیکن پھرمقامی افراد نے نومبر1948ءمیں بغاوت کردی اور مہاراجہ کے خلاف کار روائی کرتے ہوئےبریگیڈئر گھنساراکو گرفتار کرکےشاہ رینس خان کو نیا گورنر بنادیا گیا۔ نیز، پاکستان کے ساتھ الحاق کا بھی اعلان کیا۔بعد ازاں،قائدِاعظم نے سردارعالم خان کو نیا پولیٹکل ایجنٹ مقرّرکیا،جس نے 13 ستمبر 1948ءکو علاقے کا نظم ونسق سنبھالا۔ اس کے بعد ’’معاہدۂ کراچی‘‘ کے تحت علاقے کا انتظام وزارتِ امور کشمیرکو سونپ دیا گیا اورپولیٹکل ریذیڈنٹ کے ذریعے علاقے کا نظام چلایاجانے لگا۔علاقے میں پہلی سیاسی پارٹی کی بنیاد کرنل حسن خان نے گلگت لیگ کی طرز پررکھی تھی،جوزیادہ دیر تک نہ چل سکی اور 1958ءکے مارشل لاکے ساتھ ہی دفن ہوگئی۔
1969ءمیںجنرل یحی ٰ خان نے ناردرن ایریازایڈوائزری کاؤنسل کے نام پر ایک مجلسِ مشاورت قائم کی،جس کے انتخابات پہلی مرتبہ1970 ءمیں ہوئے اور 16 اراکین منتخب ہوگئے۔یہ پہلی منتخب مجلسِ مشاور ت تھی۔پہلے ریذیڈنٹ مجلسِ مشاورت کی صدارت کرتا تھا، بعد میں وزیرِاُمورِ کشمیراس کے صدر مقرر ہوگئے۔1948 ءسے اس علاقے کا انتظام ایف سی آر کے تحت چلایا جارہا تھا، جس کی وجہ سے1971 ء میں یہاں ملّت نامی تنظیم کا تصادم بھی ہو ا اور ہلاکتیں ،گرفتاریاں بھی۔پھر1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹونے یہاں کا دورہ کیا اور ایف سی آر کے خاتمے کا اعلان کردیا۔1975 ءمیں پی پی پی کی بنیاد گلگت میں بھی رکھ دی گئی اور یوں یہاں قومی سیاسی پارٹیوں کی سیاست کا آغاز ہوا۔
1987 ءمیں احمد علی شاہ کو وزیرِاعظم محمّد خان جونیجو کا مشیر مقرّرکیا گیا۔پھر 1993ءمیں پی پی کے دَور میں کچھ اصلاحات متعارف کروائی گئیں، جن کے نتیجے میں ناردرن ایریا کاؤنسل کی نشستیں 18سے 26کردی گئیں۔سابق صدر ،آصف علی زرداری کے دَور میں ایک صدارتی آرڈیننس’’ سیلف گورننگ 2009ء‘‘بھی جاری ہوا، جس کے بعدگلگت کو وزارتِ اعلیٰ ملی اور ایک کاؤنسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ بھی دیا گیا۔کاؤنسل کے صدر وزیراعظم پاکستان، جب کہ نائب صدر ،گورنر گلگت بلتستان ہیں۔صوبائی اسمبلی میں ٹوٹل 33 سیٹیں ہیں، جن میں 24جنرل، خواتین کے لیے 6اورٹیکنوکریٹس کے لیے 3 مختص ہیں۔
اب جہاں تک بات ہے پاکستان سے الحاق کی، تو اس سے مسئلہ کشمیر کے معاملات بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ جمّوں وکشمیر ہی کا حصّہ ہے۔سو، جب تک وہ حل نہیں ہوتا ،تب تک یہ مسئلہ بھی جوں کا توں ہی رہے گا۔گلگت بلتستان کا اپنا نظامِ عدل بھی ہے،جہاں چیف کورٹ ،ہائی کورٹ کے برابر ہے اور اپیلٹ کورٹ سپریم کورٹ کے برابر ۔ تاہم، یہاں کچھ سوالات بھی جنم لیتے ہیں ، جیسےکیا موجودہ صورتِ حال میں گلگت بلتستان کو مستقل صوبے کی حیثیت دینے کا فیصلہ مناسب ہوگا؟
کیا اس سے یہ تاثر پیدا نہیں ہوگا کہ ہم لائن آف کنٹرول کو ’’بین الاقوامی سرحد‘‘ تسلیم کرنے کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر پر جوہمارا مضبوط ، دیرینہ موقف ہے، جس کے لیے ہم نے بھارت سے جنگیں لڑیں، کشمیریوں نے جانوں کی قربانیاں پیش کیںاور اب بھی کر رہے ہیں، اس پر ہم اپنی اخلاقی ،اصولی اور سفارتی برتری کو کم تری میں تبدیل تو نہیں کرلیں گے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں ،جو پاکستان اورکشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کے ذہنوں میں پنپ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم ،راجہ فاروق حیدر اور مسلم کانفرنس کے رہنمائوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرنے کے بجائے اس پرخدشات کا اظہار کیا ہے۔
پھر گلگت بلتستان کے باسیوںکے بھی کچھ مطالبات، تحفظّات ہوں گے، جن پر توجّہ مرکوز کرنی ہوگی، گوکہ انہیں پاکستان کا شہری سمجھا جاتا ہے، ان کے پاس پاکستانی ہونے کی شناخت بھی ہے، لیکن ابھی تک پاکستان کے پارلیمانی اداروں (سینیٹ یا قومی اسمبلی)میں ان کی نمائندگی موجود نہیں ۔
وہ این ایف سی ایوارڈ سمیت کئی دوسری مراعات سے محروم ہیں، صوبے کا درجہ ملنے کے بعد یہ مراعات اور حیثیت ان کا استحقاق ہوگا۔ دوسری جانب،جنوبی پنجاب کے عوام،جنہیں ہرپانچ سال بعد صوبہ بنانے کے نام پر تسلّی دے کر ،وعدے کر کے الیکشن جیتا جاتا ہے، ان کی طرف سےبھی ردّ ِعمل آسکتا ہے، اسی طرح ایم کیو ایم بھی کراچی کو صوبہ بنانے کی تحریک فعال کرنے کی کوشش کرے گی۔ پھر مفروضے کے طور ہی پر سہی، لیکن یہ سوچ بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ 73ہزار کلومیٹر پر پھیلا پاکستان کا حسین ترین خطّۂ اراضی صرف دیکھنے ہی میں نہیں بلکہ زیرِ زمین معدنی ذخائر کا بھی ایک عظیم خزانہ لیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش بھی رکھتا ہے۔ پھر سی پیک کے منصوبے کے لیے محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی یہاں کی حیثیت آئیڈیل ہے۔
یہاں سے نقل و حمل صوبے کو کلیدی حیثیت کا حامل بناتی ہے اور اس پورے علاقے کو انتہائی خوش حال کر سکتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کشمیر کے اُس پار والے کشمیریوں، جنہوں نے پاکستان کے لیے ناقابلِ فراموش قربانیاں دیں، یہ سوچنے لگیں کہ پاکستان کواگر یہ فیصلہ کرنا پڑ جائے کہ انھیں گلگت بلتستان اورمقبوضہ کشمیر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو ان کا فیصلہ کیا ہوگا؟ ہر چند کہ یہ محض مفروضہ ہے، لیکن کئی حقیقتیں ابتدا میں مفروضوںہی سے جنم لیتی ہیںاور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اس لیے ضروری ہےکہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر عملی پیش رفت سے قبل اس حوالے سے تمام ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو پوری طرح اعتماد میں لیا جائے، ان کے خدشات اور تحفّظات پر بات کی جائے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس پر بحث کروائی جائےاور اپوزیشن کو بھی قومی مفادکے اس فیصلےپر اس طرح قائل کیا جائے کہ اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم کے حوالے سے ماضی کا کوئی منظر نہ دُہرایا جائے۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر، عددی اکثریت کی بنیاد پر ترمیم پارلیمانی طاقت کے زور پر نہیں ، بلکہ دونوں ایوانوں میں بھرپور یک جہتی اور ہم آہنگی کے ساتھ ہو۔