• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے پھیلاؤ سےمتعلق سٹڈی میں فیتھ گروپس کو شرکت کی دعوت

لندن ( پی اے ) فیتھ گروپس کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ کورونا وائرس کوویڈ 19 کے پھیلائو سے متعلق ہونے والے سٹڈی میں شرکت کریں ۔ سٹڈی کے شرکاء سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مختلف والیومز گائیں اور اور ان کے گانے سے پیدا ہونے والی ڈراپلٹس کو ماپنے اور پتہ لگانے کیلئے لیزرز کا استعمال کیا جائے گا۔ ریسرچرز اس سٹڈی میں یہ پتہ لگائیں گے کہ مختلف نوعیت کی فیس کورنگ کی وجہ سے کتنے ڈراپلٹس رک رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس کے ذریعے گائیڈنس کو یہ مطلع کیا جا سکتا ہے کہ عبادت کرنے والوں کی کمیونل سنگنگ میں بحفاظت واپسی ہو سکتی ہے۔ ریسرچرز کی ٹیم یہ معلومات بھی جمع کرے گی کہ کورونا وائرس کوویڈ 19 نے مختلف فیتھ گروپس کے تجربات کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) میں گیسٹرو انٹرولوچی اینڈ بائیو فوٹونکس کے پروفیسر لارنس لووت شرکاء سے ایک سوال نامہ مکمل کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کوویڈ 19پینڈامک کے دوران ان کی عبادت کا طریقہ کیسے تبدیل ہوا ہے۔ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ مارچ میں جب کورونا وائرس لاک ڈائون رولز کے تحت ملاقاتوں اور سفر پر پابندیاں عائد کی جا رہی تھیں تو اسکے بعد سے ان کی کمیونل عبادات میں شرکت اور ان کے تجربات کیسے رہے۔ جواب دہندگان میں میں سے لوگوں کے ایک گروپ کو منتخب کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ لیزر لائٹ اورہائی سپیڈ کیمرے کے سامنے کچھ گائیں جس کے ذریعے وہ ہوا میں پھیلنے والی نمی کی چھوٹی بوندوں یا ایروسول کا پتہ لگائیں گے۔ یہ شواہد ہیں کہ ان پارٹیکلز کے ذریعے کورونا وائرس کوویڈ 19 پھیل سکتا ہے۔ تیز لیزر لائٹ ان چھوٹی بوندوں کو دیکھنے کے قابل بنائے گی اور ایک سیکنڈ میں 7000 فلیش کرنے ولا کیمرا ان کو ریکارڈ کرے گا ۔ کہا جاتا ہے کہ گانے کو کورونا وائرس کوویڈ 19 کے پھیلائو کے لیے ہائی رسک ایکٹوٹی تجویز کیا گیا ہے کیونکہ وباء کے پھیلائو کو کوئر گروپوں سے منسلک کیا گیا تھا۔ موجودہ گائیڈنس میں کہا گیا ہے کہ گانا صرف پرفارمرز تک ہی محدود ہونا چاہئے اور عبادت میں اجتماعی گانا شامل نہیں ہونا چاہئے۔ گائیڈنس میں کہا گیا کہ لوگوں کو گانا ، چیخنا اور نعرے بازی کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ ایروسول اور بوندوں کے ٹرانسمیشن خطرات بڑھ جانے کے امکانات ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک تازہ ترین ریسرچ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ خود گانے کی سرگرمی کے بجائے اس کا والیوم خطرے کی سطح کے تعین کا سبب ہو سکتا ہے۔پروفیسر لووت نے شرکاء سے مختلف والیومز گانے کا کہہ کر اس سے ہوا میں پھیلنے والی چھوٹی بوندوں اور ایروسول میں پائے جانے والے فرق کی پیمائش کریں گے اور وہ اس سے پیدا ہونے والے خطرات کا اندازہ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ وہ اس ریسرچ کیلئے مختلف سائز‘قامت ، جنس ، عمر اور نسل کے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو بھی بھرتی کرنے کا پلان رکھتے ہیں جن کے چہرے پر بال نہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس کوویڈ 19 پینڈامک نے بہت سارے افراد کی روزانہ یا ہفتہ وار عبادت کے معمولات کو نمایاں طور پر تبدیل کردیا ہے جس سے ان کی عبادت ‘ اجتماعی گفتگو سے لطف اندوز ہونے یا گانے یا نعرے لگانے میں حصہ لینے کی صلاحیت خاصی متاثر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری سٹڈی کا مقصد یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کے نتیجے میں تمام فیتھ گروپس میں عبادت کا عمل کس طرح تبدیل ہوا ہے اور یہ معلوم کرنا ہے کہ جب چہرے پر ماسک کے ساتھ یا بغیر ماسک کے گانا ، نعرے بازی یا شور کیا جائے تو اس سے کورونا وائرس کوویڈ 19 کے ٹرانسمیشن کا خطرہ کتنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس ریسرچ سے ہمیں یہ سمجھنے اور جاننے میں مد ملے گی کہ کون سی چیز قابل قبول ہوگی اور کون سی نہیں۔ سٹڈی میں نرول ہونے والی جیوش مشعل سنت نے کہا کہ وہ یہ جاننے کیلئے سٹڈی میں حصہ لینا چاہتی ہیں کہ لوگوں کو خطرے میں ڈالے بغیر گانے گایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کے طور پر یک آواز ہو کر گانا گانا خاصا لطف اندوز اور متاثر کن ہوتا ہے۔ اور یہ ماحول اور عبادت کا ایک لازمی جزو ہے۔ جنید شاہ کے مطابق گانا گانا اور کمیونل عبادت مسلم عقیدے میں اتنا بڑا کردار ادا نہیں کرتی ہیں لیکن وہ دوسری کمیونٹیز کی مدد کی خاطر اس سٹڈی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کیلئے ان مشکل اوقات میں کمیونل عبادت کی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی چیز سے زیادہ یہ ایک سپورٹ نیٹ ورک ہے جو الگ تھلگ محسوس کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔
تازہ ترین