کیا غذا آپ کو خوشی دے سکتی ہے؟ یقیناً، اس سوال کا جواب ہر شخص ’ہاں‘ میں دے گا لیکن اس ’ہاں‘ کے پسِ پردہ ہر شخص کا زاویہ مختلف ہوگا۔ کسی شخص کو مرغن اور مسالے دار ڈشز کھا کر خوشی محسوس ہوتی ہے تو کسی کو اگر اُس کی پسندیدہ آئس کریم مل جائے تو وہ انتہائی مسرت محسوس کرے گا لیکن ہم جس خوشی کی بات کررہے ہیں، وہ ہے غذا کے آپ کے طویل مدتی مزاج پر اثرات کی۔
امریکا میں پر اسیس شدہ لذیذ غذاؤں کا استعمال 50 سال پہلے شروع ہوا اور ماہرین کے مطابق یہی پراسیس شدہ غذائیں لوگوں میں بڑھتے ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ امریکن اسٹینڈرڈ ڈائٹ (SAD) نے انسانی زندگی کو قابلِ رحم بنادیا ہے۔
ہم یہاں کس طرح پہنچے؟
یہ سب 50 برس پہلے اس وقت شروع ہوا، جب امریکا میں پہلی بار پیکیجڈ اور پراسیس شدہ غذائی اشیا تیار کرنے کی اجازت دی گئی اور پھر امریکی مینوفیکچررز اسے دنیا بھر میں برآمد بھی کرنے لگے۔
اسے کارپوریٹ دنیا کی ہوس کا نتیجہ کہیں یا غلط سائنس کہ لگ بھگ اسی دوران یعنی 1960ء کے عشرے میں چکنائی (فیٹ) کو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔
امریکی حکومت کے ادارے ’یو ایس ڈی اے‘ (امریکا کا محکمہ زراعت) نے ٹھوس سائنسی شواہد کا انتظار کیے بغیر ’کارپوریٹ ایگری بزنس‘ سے جُڑی لابی کے زیرِ اثر غذا کے نئے رہنما اصول اور نقائص سے پُر غذائی تکون (فوڈ پیرامِڈ) جاری کی۔
امریکی حکومت کی جانب سے غذا کے نئے رہنما اصولوں میں امریکیوں کو بہتر صحت کے لیے زیادہ سے زیادہ ’ریفائنڈ گرین‘یعنی پراسیس شدہ اناج کھانے کی تجویز دی گئی۔
زیادہ منافع کا لالچ رکھنے والی کمپنیوں نے امریکی حکومت کے ان رہنما اصولوں کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے حکومتی سبسڈی پر پیدا ہونے والے اناج کی اس طرح مارکیٹنگ کی کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کی زندگی سے چکنائی بتدریج نکلتی اور اس کی جگہ شیرے (سیرپ) اور نشاستہ (اسٹارچ) والی غذائیں لیتی چلی گئیں۔
یہ کہانی کسی خفیہ سازش کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ عوام کے سامنے اچھی نیت (بظاہر) کے ساتھ کیا جارہا تھا۔
مائکروبز کا کردار:
ہماری آنتوں میں تقریباً 3 پاؤنڈ وزن کے لگ بھگ مائکروبز ہوتے ہیں۔ ہم جو کوئی بھی غذا لیتے ہیں، یہ مائکروبز اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس سے نقصان دہ بیکٹیریا (پیتھوجن) کو نکال باہر کرتے ہیں۔
درحقیقت مائکروبز ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کے لیے ’شاہی محافظوں‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہمارے مدافعتی نظام کو ان نقصان دہ بیکٹیریاز کا پتہ چلے، مائکروبز ان سے لڑ کر انھیں تباہ کرچکے ہوتے ہیں۔
ہمارے نظام انہضام میں ان شاہی محافظوں (مائکروبز) کی تعداد تقریباً 100ٹریلین ہے حالانکہ یہ 100ٹریلین مائکروبز ہر طرح کے نقصان دہ بیکٹیریا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اگر ہم ان مائکروبز کو ان کی فائدہ مند غذا بہم نہ پہنچائیں تو ان کی دشمن پر حملہ کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
ان مائکروبز کو مسلسل نقصان دہ غذا ملنے کی صورت میں پیتھوجنز (نقصان دہ بیکٹیریا) نظامِ انہضام کو ڈسٹرب کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
غذا میں زیادہ عرصے تک درستی نہ لائی جائے تو نظامِ انہضام میں پیدا ہونے والے نقصان دہ مادے اور بیکٹیریا، خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح یہ نقصان دہ مادے اور خراب بیکٹیریا ہمارے ذہن تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
بُرائی کی جڑ:
اب سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سوزش والی تمام بیماریوں جیسے ذیابطیس، دل کے مسائل، گٹھیا یا جوڑوں کا درد، پارکنسنز، الزائمر اور دماغی مسائل جیسے ڈپریشن اور انزائٹی کی ابتدا آنتوں سے ہوتی ہے۔
اس لیے ہماری آنتوں میں فائدہ مند بیکٹیریا اور ان کی صحت، ہماری مجموعی صحت اور موڈ کے لیے سب سے زیادہ اہم بن جاتے ہیں۔
یہی نہیں، سائکو بائیوٹک بیکٹیریا ڈوپامائن اور سیروٹونن جیسے نیوروٹرانسمیٹرز بھی پیدا کرتے ہیں، جو ڈپریشن بھگا کر موڈ کو خوشگوار بناتے ہیں۔
کیا کیا جائے؟
اپنی روزانہ کی غذا میں سبزیوں، پھلوں، سالم اناج (جسے چھانا نہ گیا ہو)، گری دار میوے، زیتون کا تیل، جڑی بوٹیاں اور قدرتی مسالے شامل کریں۔ مچھلی، سمندری خوراک اور خمیرے والی چیزیں ہفتے میں ایک سے زائد مرتبہ کھائیں۔
پولٹری، انڈے اور ڈیری مصنوعات کا ہفتے میں ایک بار استعمال کریں جبکہ لال گوشت (ریڈ مِیٹ) اور مٹھائیاں یا میٹھی چیزیں کبھی کبھار کھائیں۔ مزید برآں، ورزش آپ کے مائکروبز کی صحت کو بہتر بنانے میں معاون رہتی ہے۔
بالا چیزوں پر عمل کرنے سے ایک سے دو ہفتوں میں آپ نہ صرف اپنے موڈ بلکہ اپنے پورے جسم میں بھی مثبت تبدیلی اور قوت محسوس کریں گے اور آپ کی جِلد بھی چمک اُٹھے گی۔