• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ تو غدا ر ہے ناں، وہ تو انڈیا کا کارڈ کھیل ر ہا ہےاور عوام کو اکسا رہا ہے، مگر یہ تو سب کو پتہ ہے ناکہ سلامتی کونسل میں انڈیا کو کس نے ووٹ دیا؟ شوق حکمرانی پورا ہونےکا زعم ایک طرف ، محض ڈھائی سالوں کے ہٹ اینڈ ٹرائل طرز حکمرانی نے اچھی بھلی ، گنگناتی ، چہکتی ، دمکتی ، چنچل، رواں دواں زندگی کے بخیے تک ادھیڑ دئیے ہیں ۔ کہاں گئیں وہ دودھ اور شہد کی نہریں ؟ نہ صرف عوام کو دکھائے گئے سہانے خواب سبز باغ نکلےبلکہ الٹا عوام سے جینےکا حق ہی چھین لیا گیا۔ نواز شریف تو مودی کا یار ہے نا اور وہ انڈیا کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ میاں نواز شریف انڈیا کو خوش کرنے کیلئے ہی پاکستانیوں کوپچاس روپے فی کلو چینی ، تیس روپے کلوآٹا،سستی روٹی، سستی گیس،سستی ادویات، سستی بجلی اورسستا پیٹرول دیا کرتا تھا۔ میگا پراجیکٹس، موٹر ویز کی تعمیر اور یہاں تک کہ سات ایٹمی دھماکے بھی اس نے انڈیا کو خوش کرنے کیلئے کئے تھے جبکہ اس دور میں بلا امتیاز ملکی اور غیر ملکی اشیاء عوامی دسترس سے دور ہوتی چلی جارہی ہیں۔اندیشہ ہے کہ بینکوں سمیت ملک دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔مہنگائی کے سونامی نے قوتِ خرید کو زمین بوس کرڈالا ہے،تنخواہ دار طبقےکی آمدنی اور اخراجات کی خلیج اتنی بڑھ چکی ہے جسے پاٹنا ناممکن ہوتا چلاجارہا ہے،درمیانے اور نچلے طبقے دونوں کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہیں لیکن شنوائی کیلئے کوئی موجود نہیں۔ خودکشیوں اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے،جوائنٹ فیملی سسٹم قصہ پارینہ ہونے کے دھانے پہ آن پہنچا ہے، دو دہائیوں میں پہلا بار ایسا ہوا ہےکہ لاہور یوں کو دن دیہاڑے راہزنی، آبرو ریزی، قتل و غارت اور ڈکیتیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔معاشرے میں زندگی کی رمق کو برقرار رکھنے کیلئے انسانیت کا ٹانکہ لگانا پرتا ہے لیکن نام نہاد عوامی نمائندوں میں اس کی شدید قلت ہے، یعنی وہ اس سے بالکل مبرا ہیں، ان کا ریکارڈ اور رویہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ اس سے مبرا ہی رہیں گے، انکے فیصلوں کی ارزانی کی بدولت امید ِبہار ریت کے ذروں کی مانند مٹھی سے کھسکتی چلی جارہی ہے اور باوجود کوشش رکنے میں نہیں آرہی۔طریقِ سیاست اس قدرخوفناک ہوچکا ہے کہ عوام کا اعتبار ہی اٹھ گیا ہے،ملک خدادا کی تاریخ میں کبھی یہ وقت نہیں آیا تھا ،گلی گلی، کوچے کوچے، کیاا خبار ، کیا بینر، کیا سوشل میڈیا ، کیا مین سٹریم میڈیا ، کیا بچہ ، کیا بڑا ، کیا مرد ، کیا عورت ہر کوئی ایک ہی نوحہ پڑھ رہا ہے،ہم سے غلطی ہوگئی ، ہمیں معاف کردو، استعفیٰ دو اور ہمیں پرانا پاکستان لوٹا دو۔لیکن ایک پیج ایک پیج کے موقف کا ترانہ بجایا جارہا ہے ۔

میاں نواز شریف پر الزام ہے کہ اسکی ہمیشہ لڑائی رہتی ہے اسی پراپیگنڈا کے تحت نواز شریف کے بیانیے پر حملے جاری ہیں لیکن اسکی اصولوں پراختلاف رائے کر کے ڈٹ جانے کی انتہائی زبردست جرأت کوآزاد مورخ ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھے گا۔قانون اور آئین سے ہٹنا اور ہٹائے جانا اس کے خون میں شامل نہیں، 1993میں اس نے ڈٹ کر کہا تھاڈکٹیشن نہیں لونگا،1999میں شجاعت کا کوہ ہمالیہ بن کر کہا تھا’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ 2014 میں سیدھا ہوگیا تھاجو کرنا ہے کر لیں،استعفیٰ نہیں دونگا،2014 میں نعرہ مستانہ لگایا ووٹ کو عزت دو، اسے جعلی مقدمے میں گھر بھجوا دیا گیا،اس کے گلے میں زبردستی غداری کا طوق ڈالا گیا، یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی سیاست کا باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ، لیکن مورخ دیکھ رہا ہے، اسے غدار ٹھہرانے والے، عدالتوں سے سزا دلوانے والے ایک ایک کرکےمنظر سے غائب ہوتے جارہے ہیں جبکہ نواز شریف کی سیاست نہ صرف زندہ ہے بلکہ مریم نواز شریف کی شکل میں ایک اور موثر، تسلیم شدہ ، عوام کی پسندیدہ قیادت کا جنم ہوچکا ہے جسے روکنا ناممکن ہوچکا ہے،میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو پابند سلاسل کرکے بھی شریف خاندان میں اختلاف کی خلیج پیدا نہیں کی جاسکی ۔نواز شریف کا فلسفہ غداری نہیں بلکہ مادرِ وطن سے سچی یاری ہے۔نواز شریف کے فلسفے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ غلطیوں کو تسلیم کرلوکہ اصلاح اور بہتری کی صورت صرف مان لینے سےہی پیدا ہوتی ہے، جو کام جس کو نہ کرنا آتا ہو اسے نہیں کرنا چاہیے، مسلط کی گئی جعلی ترقی کے کردار اپنی ناکامی قبول کرتےہوئے پسپا ہوجائیں تاکہ عوام کو مشکلات کے سونامی سے نجات دلائی جاسکے ۔میاں نوازشریف فسطائیت کا منکرہے اور جمہوریت کا پیامبر ہے جس کا سفر جاری و ساری ہے، نہ اس نے راستہ بدلا،نہ ہم نے رہنما بدلا، گوجرانوالہ کے جلسہ پر آئیں بائیں شائیں کرنے والوں کی موم بتی بجھ چکی ہے ، اللہ کے کرم سےسیاسی خزاں جلد دائمی بہارکا روپ اختیار کرلے گی اورعوام کو انکی خوشیاں لوٹا دی جائیں گی۔ جمہوریت زندہ باد،پاکستان پائندہ باد۔

تازہ ترین