قوموں کی تاریخ میں نوجوان نسل کا کردار مثالی رہا ہے۔ ملکی تعمیرو ترقی میں کردار کے حوالے سے نگاہ دوڑائی جائے تو قیامِ پاکستان کی تحریک میں بھی نوجوان نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا عملی دست و بازو بن کر قوم کے ہرفرد کے شانہ بشانہ چل کر وطن عزیز کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نوجوانوں کو ملک کی حقیقی قیادت کے روپ میں دیکھتے تھے، جس کا تصور آپ کے کام، کام اور صرف کام سے ملتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں اس دور کی نوجوان نسل نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ بانی پاکستان کے پاس اس نومولود ریاست کے مستقبل میں نوجوانوں کے کردار کے حوالے سے بھی ایک وژن تھا۔جس کا اظہار ان کی تقاریر اور خطبات کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل اور قیام کے بعد بھی جناح نے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ملک کا مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔قائد اعظم چاہتے تھے کہ پاکستان کا نوجوان ترقی کے سفر کو آگے لے کر چلے، جس کا اظہار انہوں نے پاکستان کے طلبا کے ساتھ وزارتِ تعلیم کی ذریعے بھجوائے گئے ایک پیغام میں کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا، کہ’’ 'کیا آپ مستقبل کی ذمہ داریاں نبھانے کی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور کیا آپ کے پاس تربیت ہے؟ اگر نہیں، تو جائیں اور تیاری کریں کیونکہ مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے تیاری کرنے کا وقت یہی ہے۔‘‘
آج کے مادیت زدہ دور میں ِ پاکستان کو علم و تحقیق اور فکر و آگہی کے میدانوں کے شہسواروں کی ضرورت ہے، جو اس ملک کی مستقبل کی قیادت سنبھال کر دنیائے تحقیق میں اپنے ملک کا نام بلند کرسکیں۔ پاکستان میں نوجوان افرادی قوت کاایک بڑا حصہ موجود ہے، جس کے شعور کی بیداری، تعلیم کی ضرورت کی فراہمی، انصاف اور جدید تقاضوں سےہم آہنگی پیدا کرکے آبادی اور ترقی میں نوجوان نسل کے کردار کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور ترقی کی رفتار بھی رک جاتی ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے کئی دیگر حساس معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل کےساتھ ان کےلئے واضح منصوبہ بندی کی کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کر سکے بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلے جو ان کی اور ملک کی بہتری کےلئے کسی طور مناسب نہ تھی۔آج کے نوجوان کو کئی اطراف سے ایسے مسائل درپیش ہیں جو اس کی شخصیت اور کردار پر اثر اندازہوتے ہیں، لہذا ان حالات میں ایک استاد کا فرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس کو اپنے شاگرد سے علم اور عمل میں کئی قدم آگے چلنا ہو تا ہے ،تاکہ وہ طالب علموں کو عہد رواں کے عملی اور علمی ابہام سے بچا سکے۔
یہ دنیا کی سچائیوں میں سے ایک ایسی سچائی ہےکہ ہر قوم کے مستقبل کا انحصار اس کے نوجوانوں پر ہے۔ خواہ ہم اس کی قدر کریں یا نہ کریں۔ قومیں اپنے رقبوں، اپنی عمارتوں، اپنے باغوں، چمنوں، اپنے دریاؤں اور پہاڑوں سے باقی نہیں رہتیں، بلکہ اپنی آئندہ نسلوںسے بھی زندہ رہتی ہیں۔ نوجوان اچھے ہوں تو قوم زندہ رہے گی۔ اگر ان کے پاس دریا اور پہاڑ نہ ہوں گے تو وہ اپنے لیے نئے دریا اور نئے پہاڑ پیدا کر لے گی، برعکس اس کہ، نوجوان مردہ ہوں تو اشبیلیہ، غرناطہ اور قرطبہ کی عظمتیں تعمیر کرنے والے بھی صرف تاریخ کی ایک داستان عبرت بن کے رہ جاتے ہیں۔
دنیا کی ہر زندہ رہنے والی قوم نے سب سے زیادہ اہمیت اپنے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کو دی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں کو یہ بات عزیز ہوتی ہے کہ صفحۂ عالم میں ان کا مادی وجود بھی قائم رہے اور ان کی معنوی ہستی بھی کارفرما رہے، انھوں نے اپنے بام و در کی آرائش کے بجائے اپنے آگے آنے والے اسلاف کی تہذیب و تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔ رومی و یونانی ہوں یا انگریز و امریکن، دنیا کے نقشے پر پائیدار نقش اسی قوم نے چھوڑا ہے، جس نے اپنی آنے والی نسل کی فکر کی ہے۔
افراد ہوں یا قومیں ان کا مادی اور معنوی وجود ان کی نسلِ نو سے باقی رہتا ہے اور اس بقا کی خواہش ایک امرفطری ہے، جس قوم کے اندر یہ خواہش مردہ ہو جاتی ہے یا اس کے لیے جو اہتمام مطلوب ہوتاہے، وہ اس کے اندر باقی نہیں رہتا تو وہ قوم دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اپنا نام اور مقام پیداکرنے والی شخصیات نے کم عمری میں کمالات کے جوہر بکھیرنا شروع کر دیئےتھے۔
پاکستان کی نوجوان نسل پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل اضطراب کا شکار رہی ہے۔ لیکن حالیہ نسل شاید سب سے پر انتشار عہد سے گزر رہی ہے۔اپنے لئے مستقبل کی نئی راہیں ڈھونڈنے والے طلبا و طالبات عام طور پر اس وقت کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیںجب وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کی تیاریاں کر رہے ہوتے ہیں کچھ کو درست رہنمائی نہیں مل رہی ہوتی اور کچھ خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ہمارا یہ اہم قومی اثاثہ مختلف مسائل اور الجھنوں کا شکار اور پریشان حال ہے۔ ان کی بات کسی فورم پر نہیں ہوتی۔ ان کی خودکشیوں کی خبریں تو بریکنگ نیوز بنتی ہیں ،مگر ان کی الجھنوں کے خاتمے کےلیے کوئی ٹاک شوز نہیں ہوتے۔غریب طبقے کا نوجوان مہنگی تعلیم اور معاشی بوجھ کی وجہ سے دوہری اذیت میں مبتلا ہے،ان کی صحت اور نفسیات شدید متاثر ہورہی ہیں۔وہ حالات کے آہنی شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم ابھی تک ماضی کے دھندلکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، نہ ہمیں حال کی ضروریات کا ادراک ہے اور نہ ہی مستقبل کے چیلنجز سے باخبر ہیں۔ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا شدید فقدان اور مایوسیوں کا اندھیرا نظر آتا ہے۔ ہم تنقید کے ماہر ہیں لیکن اصلاح سے ہمیں سروکار نہیں۔
آج اس بات کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو ملک کی پالیسی سازی اور مستقبل کے لئے فیصلہ کرنے میں ان کو جمہوری انداز میں شامل کیا جائے ۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی فلاح بہبود میں ترو تازہ دماغ کا اہم رول ہوگا۔ ملک ترقی کو نئے منازل طے کرے گا، ساتھ ہی ساتھ ان نوجوانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ لفاظی کے بجائےعملی اقدامات کو مقصد بنا یا جائے۔ محض گفتار کا غازی بننے سے نہ سماجی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی ترقی اور خوش حالی کے دریا کو پار کیا جا سکتا ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔
ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآ پ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔