سندھ بھر کی طرح نواب شاہ سے گزرنے والی قومی شاہ راہ پر ایکسائز پولیس کی جانب سے برسوں سے قائم چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر اہلکاروں کی جانب سے ٹینکر ڈرائیور پر بہیمانہ تشدد اور اس کے جسم کے نازک حصے پر ضربات اور برہنہ کرنے اور بے عزتی برداشت نہ کرنے پر ٹینکر ڈرائیور کی جانب سے ردعمل میں کچھ اور نہ کرسکنے کے باعث خود پر تیل چھڑک کر آگ لگانے کے دل خراش واقعے نے محکمہ ایکسائز کی پولیس پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں، گو ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن محمد اسلم بھٹو کی جانب سے صابو راہو پولیس پوسٹ پر انسپیکٹر سمیت تمام عملہ کو معطل کرکے تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔
تاہم اس واقعہ نے یکسائز پولیس کی برسوں سے قائم اس چوکی سمیت اباڑو سے کراچی تک قومی شاہراہ پر قائم ایکسائز پولیس کی چوکیوں کی ضرورت افادیت اور ان کی کارکردگی بھی اس تفتیش کا حصہ بناننا بھی ضروری ہوگیا ہے ۔ تاہم جو واقعہ پیش آیا، اس سلسلے میں تفصیلات کچھ ہوں ہیں کہ ٹینکر ڈرائیور مطیع الرحمان جو کہ صادق آباد سے آئل ٹینکر سمیت کراچی جارہا تھا کہ قومی شاہ راہ پر نواب شاہ کے قریب صابو راہو ایکسائز پولیس پوسٹ پر متعین اہلکاروں حسب معمول روکا اور سڑک سے اتار کر ٹینکر کو کچے میں ایک طرف لے گئے۔
اس بارے ڈرائیور مطیع الرحمان نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ وہ صادق آباد سے کراچی جارہا تھا کہ سکرنڈ اور سعید آباد کے درمیان صابو راہو ایکسائز پولیس پوسٹ پر عمل نے اسے روکا اور آئل ٹینکر کو چوکی کے ساتھ کھڑا کردیا اور اس سے پوچھ گچھ شروع کردی ڈرائیور مطیع الرحمان نے پولیس کو اپنے بیان میں روتے ہوئے بتایا اور یہ بیان تعلقہ اسپتال سکرنڈ میں اس سے ایمبولینس میں ایک صحافی نے لےکر سوشل میڈیا پر بھی وائرل کردیا تھا۔
اس نے بتایا تھا کہ اس کو ایکسائز پولیس کے اہلکاروں یہ کہہ کر ٹارچر کیا کہ اس نے ٹینکر کے خفیہ خانوں میں چرس چھپا رکھی ہے اور وہ صادق آباد کی بجائے کہیں اور سے ٹینکر بھر کر لارہا ہے اور منشیات کی گینگ کا حصہ ہے اور تیس ہزار روپیہ دے تو گلو خلاصی ہو سکتی ہے۔ ڈرائیور مطیع الرحمان کا کہنا تھا کہ اس نے ایکسائز پولیس اہلکاروں کو باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ منشیات کے دھندے میں ملوث نہیں اور حلال کی روزی کے حصول کے لیے آئل ٹینکر چلا رہا ہے۔ تاہم اس کا کہنا تھا کہ تیس ہزاروپیہ کی ادائیگی کے لیے اس کا انکار اور ایکسائز پولیس کا اصرار جوں جوں بڑھتا جارہا تھا۔
پولیس کے رویہ میں سختی بڑھتی جارہی تھی اور اس دوران اس نے بتایا کہہ ایکسائز پولیس کے اہلکاروں نے اس پر تشدد اور بُری طرح ذدوکوب کرنا شروع کردیا، جب کہ دوران تشدد کپڑے اتار کر برہنہ کردیا اور ایک اہلکار نے جسم کے نازک حصوں پر تشدد کیا۔ ڈرائیور مطیع الرحمان نے پولیس کو بتایا کہ یہ بے عزتی اور تذلیل اس کے لیے ناقابل برداشت تھی جو کہ ایکسائز پولیس اس کے ساتھ کررہی تھی۔ اس نے بتایا کہ عزت دار آدمی ہوٓں اور یہ بے عزتی برداشت نہ کرسکا اور ایکسائز پولیس کے سامنے ہی جو کہ اس پر تشدد کرکے مزے لے رہے تھے، خود پر تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
تاہم جوں ہی ڈرائیور مطیع الرحمان نے یہ اقدام کیا۔ ایکسائز پولیس اس کو ایمبولینس میں ڈال کر تعلقہ اسپتال سکرنڈ لے گئی۔ میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر نصیر شیخ کے مطابق جلے ہوئے کا وارڈ نہ ہونے کے باعث اسے پیپلز میڈیکل اسپتال نواب شاہ منتقل کردیا۔ تاہم جہاں بھی یہ وارڈ نہیں ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق ڈرائیور کے جسم کا نوے فیصد حصہ جل گیا تھا، یہاں علاج ممکن نہ تھا، اس کو ایکسائز پولیس کراچی لے گئی۔
ادھر آئل ٹینکر ایسوسی ایشن سندھ کے صدر عبدالجبار سوہو نے جنگ کو بتایا کہ انہیں آئل ٹینکر ڈرائیور مطیع الرحمان کے ساتھ ایکسائز پولیس کی زیادتی کی اطلاع ہوئی تو، وہ جب صابو راہو ایکسائز پولیس پوسٹ پر پہنچے، تو پوسٹ کے کمرے پر تالہ لگا تھا، جب کہ ایکسائز پولیس غائب اور وہاں آئل ٹینکر ڈرائیور کے کپڑے پولیس پوسٹ کے پیچھے پڑے تھے، جو انہوں نے اٹھا لئے تاہم عبدالجبار سوہو کے مطابق ایکسائز پولیس افسران ڈرائیو مطیع الرحمان کے متعلق بتانے سے گریزاں تھے۔
تاہم جب سکرنڈ اسپتال سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ زخمی ڈرائیور کو ایکسائز پولیس سکرنڈ سے نواب شاہ اسپتال اور پیپلز میڈیکل کے ایم ایس کے مطابق جلے ہوئے کا وارڈ نہ ہونے سے ڈرائیور کو کراچیی اسپتال لے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں آئل ٹینکر ایسوسی ایشن سندھ کے صدر عبدالجبار سوہو نے جنگ کو بتایا کہ ایکسائز پولیس نے سندھ میں گھوٹکی سے کراچی تک منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے نام پر سات چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں، جہاں آئل ٹینکر ۔ٹرک اور ٹرالر ڈرائیوروں کو منشیات اسمگلنگ کے نام پر بلیک میل کرکے فی گاڑی ہزاروں روپیہ وصول کرتے اور ڈسٹرکٹ اور موٹر وے پولیس بھی ان کے سامنے بے بس تھی۔
ان کا کہنا تھا ایکسائز پولیس اہلکار ان غیر قانونی چیک ہوسٹوں جسے وہ سال چھ ماہ میں کسی گاڑی سے چند کلو اعلی کوالٹی کی چرس یا افیون برآمد دکھا کر اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت کروڑوں روپیہ بتا کر اور الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس کی خوب تشہیر کرکے ان چیک پوسٹوں کی عوام اور محکمہ کے سامنے افادیت جتا کر ان کو قائم رکھنے میں کام یاب اور بھتہ خوری کرکے اپنے گھر بھرے۔ تاہم اس روح فرسا واقعہ کی خبر جنگ میں شائع ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے کراچی کے اسپتال میں ڈرائیور مطیع الرحمان کو ڈھونڈ نکالا اور زخمی ڈرائیور اور اس کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے انہیں انصاف کی یقین دھانی کرائی تاہم انہیں دیر ہوچکی تھی اور آگ میں نوے فیصد جھلسا ہو ڈرائیور مطیع الرحمان اس ملاقات کے چند گھنٹوں بعد اللہ کے دربار میں انصاف کے حصول کے لیے پہنچ چکا تھا ۔
پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ نے اس واقعہ کی شدید مزمت کرتے ہوئے کہا کہ سندہ میں پولیس بے لگام ہوچکی اور عوام کے تحفظ کی بجائے بدامنی اور لوٹ مار کا مرتکب بن رہی ہے انہوں نے کہا کہ ایکسائز پولیس کے ہاتھوں تشدد اور تذلیل برداشت نہ کرنے والے مطیع الرحمان کی موت کی ذمے دار ایکسائز پولیس اور اس کے افسران ہیں جنہوں نے اہلکاروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
ممبر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ پولیس میں سابق صدر آصف علی ذرداری اور پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں ہزاروں پولیس اہلکاروں کی بھرتی جو کہ جعلی تعلیمی اسناد اور میڈیکل فٹنس کے بغیر کی گئی ہیں نے پولیس کے محکمہ کی کارکردگی کو صفر کردیا اور جرائم کی شرح کو بلند کردیا ہے ادھر اس سلسلے میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر ذولفقار سمیجو نے جنگ کو بتایا کہ پولیس پوسٹ صابو راہو کے انسپکٹر اور عملے کو معطل کردیا گیا ہے ،جب کہ صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ مکیش چاولہ نے سندھ میں قومی شاہراہ پر قائم ایکسائز پولیس کی سات چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا حکم دیاہے۔
تاہم سول سوسائٹی کے رہنما دھنی بخش ڈاہری کے مطابق محض ایکسائز پولیس کی پوسٹوں کے خاتمے اور ڈرائیور پر تشدد کے مرتکب اہلکاروں کی معطلی سزا کافی اور برقرار رہے گی یا انہیں ایک ایک کرکے بحال کردیا جائے گا۔
ادھر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کی جانب سے ضلع شہید بےنظیر آباد نواب شاہ کے 55پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کرنے کے بارے میں جنگ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ سال 2008 کے بعد سندھ پولیس میں قوائد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرکے بھرتی ہونے والوں کی چھان بین کمیٹی کی سفارش پر سندھ بھر میں برطرف کیے جانے والے پندرہ سو پولیس اہلکاروں میں نواب شاہ کے پچپن اہلکار شامل ہیں، تاہم اس سے آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے صدر عبدالجبار سوہو کی جانب سے ڈرائیور مطیع الرحمن کے ورثاء کو انصاف نہ ملنے اور اس واقعہ کے ذمہ داروں کو سزا نہ ملنے کے خلاف سندھ میں آئل ٹینکروں کی ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔