• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

امریکی صدارتی انتخاب، جو بائیڈن کے جیتنے کے امکانات 87 فیصد

امریکی صدارتی انتخابات آئندہ ماہ تین نومبر کو منعقد ہوں گے جبکہ اس کے لیے امریکا کی50ریاستوں میں قبل از وقت ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے، ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ کو ڈیمو کریٹک پارٹی کے اُمیدوار جوبائیڈن کی جانب سے چیلنج ہے جو کہ صدر اوبا ماکے دور میں امریکی نائب صدر رہ چکے ہیں۔

جوبائیڈن1970ء سے مسلسل امریکی سیاست میں حصہ لیتے چلے آ رہے ہیں اوروہ سینٹ سمیت کئی اہم عہدوں پر اپنے علاقے سے عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں، صدارتی انتخابات کے دن جوں جوں قریب آ رہے ہیں، تو مختلف اعداد وشمار جمع کرنے والے سروے رپورٹس میں ان دونوں اُمیدواروں کی پوزیشن واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت جن ریاستوں میں گھمسان کا مقابلہ متوقع ہے اس میں امریکا کی نو ریاستیں ایسی بتائی جا رہی ہیں جو کہ آئندہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے باٹل گراؤنڈ تصور کی جا رہی ہیں چونکہ امریکی انتخابات کا فیصلہ الیکٹرول کالج کے نظام کے تحت ہوتا ہے، اس لیے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ جس اُمیدوار نے زیادہ ووٹلیے ہوں وہی جیت سے بھی ہمکنار ہو۔

2016ء کے انتخابات میں امریکا کی تمام ریاستوں کے اگر ووٹ جمع کیے جائیں تو اس وقت ہیلری کلنٹن نے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلہ میں30لاکھ سے زائد ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے مگر چونکہ وہ الیکٹرول کالیج کے تحت مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر سکیں اس لیے ہیلری صدر ٹرمپ سے مقابلے میں شکست سے ہمکنار ہو گئیں۔

اس وقت سروے رپورٹ کے جو اعدادوشمار سامنے آ رہے ہیں اس کے مطابق یہی کچھ صورتحال اب ٹرمپ کے ساتھ نظر آرہی ہے،مختلف سروے رپورٹس کے مطابق امریکا کی 9ایسی ریاستیں ہیں جہاں پر ان دونوں اُمیدواروں کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے والا ہے ان ریاستوں میں مشی گن، وسکونس، آئیووا، اوہائیو،پینسلونیا،نارتھ کیرولانا،جارجیا،فلوریڈا اور ایری زونا کی ریاستیں شامل ہیں، جن کے کل الیکٹرول کالج ووٹ کی تعداد125ہے۔

امریکی صدارتی اُمیدوار کو وائٹ ہائوس پہنچنے کے لیے کل270الیکٹرول کالج کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور اعداد وشمار کے مطابق یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں پر صدر ٹرمپ نے2016ء کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی مگر اب یہ ریاستیں ان کے حریف اُمیدوار جوبائیڈن کی جانب جُھکی نظر آ رہی ہیں اور ان ریاستوں میں دونوں اُمیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

کورونا وائرس کے سبب اس وقت بے یقینی کی صورتحال ہے لیکن جو تازہ ترین پول سامنے آ رہے ہیں اس کے مطابق یہ نو ریاستیں مستقبل میں امریکا کے صدربنانے میں اہم کردار ادا کریں گی، ریاست ٹیکساس جس کے ووٹ 38ہیں اس میں اس وقت تک ٹرمپ کو برتری حاصل ہے لیکن نئے ووٹروں کے اندراج کے باعث یہاں بھی صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے ری پبلکن پارٹی کا انتخاب لڑنے والے سینیٹر نے بھی اپنے آپ کو ٹرمپ کی سیاست اور خیالات سے دور رکھنے کا حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ بعض معاملات پر ان کے خیالات ٹرمپ سے نہیں ملتے۔

اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست ٹیکساس جسکو ری پبلکن کا گڑھ تصور کی جاتی ہے وہاں بھی ری پبلکن پارٹی اُمیدوار اپنا انتخاب جیتنے کے لیے ٹرمپ کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں چاہتے کیونکہ یہاں ٹرمپ کی پالیسیوں کو تو کرنے کی صورت میں ان کو اپنا جیتنا مشکل نظر آ رہا ہے۔

اس وقت بھی اعداد وشمار کے مطابق اس ریاست میں ٹرمپ کو49.2% اور جوبائیڈن کو44.8%عوام کی حمایت حاصل ہے ،تاہم رائے شماری کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ یہ رائے شماری سو فیصدہی درست ثابت ہوکیونکہ2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ کے مقابلہ میں ہیلری کلنٹن کو سبقت حاصل تھی مگر وہ2016ء کا انتخاب ہار گئیں، اس وقت رائے شمار ی کے مطابق ڈیمو کریٹک اُمیدوار جوبائیڈن51فیصدی اور ٹرمپ42فیصد عدد حاصل کیے ہوئے ہیں۔

اس طرح جوبائیڈن اس دوڑ میں ٹرمپ سے کافی آگے ہیں، انتخابی تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ شاید ٹرمپ یہ انتخاب ہار جائیں نیٹ سلور کے فائیو تھرٹی ایٹ ڈاٹ کام کے بلاگ کے مطابق جو بائیڈن کے جیتنے کے امکانات87فیصد ہیں جبکہ ڈسیزن ڈیسک ہیڈ کوارٹر کے مطابق جو بائیڈن کے جیتنے کے امکانات83فیصد ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان ہونے والے پہلے تقریری مباحثے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے حالات موزوں ثابت نہیں ہوئے وہ بار بار جس طرح اپنے حریف کے بولنے کے دوران دخل اندازی کرتے رہے اُن کا یہ طریقہ اکثریتی عوام خصوصنا ًخواتین کو پسند نہیں آیا اور خواتین کی کافی تعداد نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

اس طرح بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بحث سے انکار کر دیا اور اب جمعرات کو آخری بحث کے دوران وہ جوبائیڈن کے مقابلے میں اپنے آپ کو بہتر اُمیدوار ثابت نہیں کرسکے اس بارجو بائیڈن کوئی غلطی کر جاتے ہیں تو اس کا فائدہ ٹرمپ کو ملنے کی توقع تھی ، مگر وہ اس مباحثہ میںبھی اُن پر چھائے نظر آئے بہرکیف مذکورہ نو ریاستیں جن کا ہم نے اُوپر ذکر کیا ہے یہ ریاستیں اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی پہنچ سے دور دکھائی دے رہی ہیں، جن میں انہوں نے2016ء کے انتخابات میں شاندار فتح حاصل کی تھی۔

جو بائیڈن کو پسند کرنے والوں میں مضافاتی لبرل ناراض ری پبلکن، ڈیموکریٹ ورکنگ کلاس اور ان کو نسلی اقلیتوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کم پڑھے لکھے سفید فام طبقہ کی حمایت حاصل ہے جن کا تعلق زیادہ تر دیہاتی علاقوں سے ہے جس میں زیادہ تر طبقہ عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہےجبکہ نوجوانوں کی اکثریت جوبائیڈن کے ساتھ ہے۔

موجودہ انتخاب کے حوالے صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ معیشت کو بہتر کریں گے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے، امریکا کے تجارتی مفاد کا تحفظ کریں گے اور امیگریشن سے متعلق اپنی پالیسیوں کو نرم نہیں کریں گے، صدر ٹرمپ چین پر انحصار ختم کر کے معیشت کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

دونوں اُمیدواروں کے درمیان ہونے والے اس مقابلے میں یہاں رہنے والی انڈین کمیونٹی بھی تقسیم کا شکار نظر آتی ہے، گو کہ ماضی میں انڈین کمیونٹی ہمیشہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو سپورٹ فراہم کرتی رہی ہے، مگر گزشتہ انتخابات میں انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ انڈین کمیونٹی کے دل جیتنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف امریکا میں پابندی نافذ کرنے جیسے بیانات دئیے مگر اب چونکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے نائب صدارتی اُمیدوار کمیلا ہیرس ہیں، جن کی والدہ کا تعلق انڈیا سے ہے جبکہ ان کے والد جمیکن نژاد امریکی ہیں ، وہ اپنی تقاریروں میں بار بار اپنی والدہ کابھی ذکر کرتی نظر آئیں جس کی وجہ سے انہوں نے یہاں مقیم انڈین برادری کے بہت سے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انڈین امریکن کی جانب سے ماہ ستمبر میں ہونے والی فنڈ ریزنگ میں ڈیمو کریٹک کے لیے ایک رات میں ورچول فنڈ ریزنگ کے دوران33 لاکھ ڈالر جمع کر لیے گئے۔

انڈین بائیڈن اور ہیرس کے کشمیر سے متعلق انڈین حکومت کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور اس کو انڈ ین برادری اچھی نظر سے نہیں دیکھتی ہے ، دوسری جانب امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت جو کہ پہلے کبھی ری پبلکن پارٹی کو پسند کیا کرتے تھے وہ9/11کے واقعات کے بعد صدر بش کی پالیسیوں کے سبب اس پارٹی سے ناراض ہوئے اور آہستہ آہستہ یہ کمیونٹی ڈیمو کریٹک پارٹی کے قریب تر آتی چلی گئی۔

ریاست ٹیکساس میں موجود ڈیمو کریٹک پارٹی کے پاکستانی نژاد رہنما سید فیاض حسن ، آفتاب سدیقی، امیر مکھانی اور راجہ زاہد اختر خانزادہ گزشتہ20سالوں میں اس پارٹی سے وابستہ ہیں اور وہ پر اُمید دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی امریکن کی اکثریت ڈیمو کریٹک پارٹی کے اُمیدواروں کو ہی ووٹ کرے گی ۔

اس طرح ڈیموکریٹک صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن کے پاکستانی امریکی بزنس مین طاہر جاوید جن کا تعلق ہیوسٹن سے ہے وہ ان کے بڑے سپوٹر ہیں اور ان کے گھر بھی ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں جو بائیڈن خود بھی شریک ہوئے اور کشمیر پر اپنی جانب سے واضح بیان دیا کہ وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور وہ اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ۔

طاہر جاوید نے ان کےلیے 1.8ملین ڈالر کمیونٹی کے تعاون سے فنڈ بھی اکھٹا کیا اس طرح دیگر ریاستوں میں بھی پاکستانی نژاد امریکی جس میں کیلیفورنیا سے ڈاکٹر آصف قدیر شامل ہیں اور وہ سینیٹر کمیلا ہیرس کے کافی قریبی تصور کیے جاتے ہیں وہ بھی پارٹی فنڈز کے سلسلے میں کافی متحرک ہیں، اس طرح نہ صرف امریکی صدارتی اُمیدوار بلکہ امریکی نائب صدارتی اُمیدوار تک پاکستانی نژاد امریکیوں کے تعلقات ہیں اور ان سے رسائی ہے ، اس طرح یہ تعلقات کسی طور پاکستان اور انڈیا سے متعلق پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، لیکن دونوں پارٹیوں کی جانب سے اس سلسلے میں پہلے سے ہی بیانات کے ذریعے اس بات کا اعادہ کیا جا چکا ہے کہ ان کا جھکائو کس طرف ہو گا اور ان کی پالیسیاں کیا ہوں گی ۔

امریکا میں ہونے والے ان صدارتی انتخابات میں ایک پاکستانی نژاد امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے شیدائی ہیں ان کا تعلق ، آئل بزنس سے ہے سید جاوید انور ری پبلکن پارٹی کے لیے خطیر رقم فراہم کرتے رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے خطیر رقم ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے انتخابات کے لیے عطیہ کی ہے،تاہم پاکستانی عوام کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت، مسلمان پناہ گزینوں کے داخلہ پر پابندی اور کچھ مسلمان ممالک میں امیگریشن پر پابندی اور انڈین حکومت کے وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی قربت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی ہے۔

کئی کمیلا ہیرس کے انڈین تعلق کے سبب بھی ری پبلکن پارٹی کو سپورٹ فراہم کرنے کا جواز بنا رہے ہیں، تاہم جہاں تک نظریات کا تعلق ہے تو پاکستانی اور ری پبلکن پارٹی کے نظریات کے حوالےسے کافی چیزیں مماثل نظر آتی ہیں، جس میں فیملی اقدار، معاشی اور سماجی قدامت پسندی شامل ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات2020ء گزشتہ دیگر انتخابات کے مقابلے میں انتہائی مختلف ہے کیونکہ کورونا وائرس کے سبب تمام سیاسی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی ہیں، پہلے صدارتی انتخابات سے قبل جلسے جلوس منعقد ہوتے تھے، مگر اب سب کچھ ورچول ہو رہا ہے ووٹنگ بھی اس کے سبب متاثر ہو رہی ہے اور کئی لوگ کئی گھنٹوں بڑی بڑی لائنیں دیکھ کر ووٹ ڈالنے نہیں جا رہے ہیں۔

کئی جگہوں پر ووٹنگ پوسٹل بیلڈ کے ذریعے ہو رہی ہے، اس طرح نتائج آنے میں دیر بھی لگ سکتی ہے ، جس طرح2000ء میں بش کے انتخابات کے دوران ہوا تھا ، اس ضمن میں پہلے ہی43 ریاستوں میں190مقدمات عدالتوں میں دائر کیے جا چکے ہیں، سپریم کورٹ میں ایک جج کی وفات کے بعد وہاں پر نکلنے والی آسامی پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی جانب سے ایک امیدوار کو تعینات کرنے کا حکم بھی جاری کرچکے ہیں، مگر اس کی اجازت کانگریس اور سینیٹ سے ہونا باقی ہے۔

اس پر بھی کافی قانونی جنگ چل رہی ہے جبکہ صدر ٹرمپ نے ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے کے عمل پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فراڈ کا الزام لگایا ہے اور انہوں نے اقتدار کی پر امن منتقلی کے وعدے سے انکار بھی کیا ہے۔

‎بہر کیف کئی سروے رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے مخالف اُمیدوار جو بائیڈن سے مقبولیت میں کافی پیچھے ہیں اور کئی جائزہ رپورٹس میں یہ فرق10نمبرں سے بھی آگے نکل جاتا ہے، اکانومسٹ کے ایک حالیہ تجزیے میں جوبائیڈن کی جیت کا امکان 2008ء میں باراک اوباما کی با آسانی فتح کی طرح چھ سے پانچ فیصد ہے۔

‎ٹرمپ اس وقت بھی2016ء والی حکمت عملی پر عمل کررہے ہیں لیکن اب حالات اس کے بالکل مختلف ہیں، عوامی مزاج اس وقت بدلا ہوا ہےکورونا وائرس سے ایک لاکھ بیس ہزار امریکی لقمہ اجل بن چکے ہیں، نسلی امتیاز بڑھنے کی وجہ سے عوام ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور پالیسیوں کو دے رہے ہیں جس سے امریکا میں نفرتوں کو جنم دیا گیا۔

اس وقت ووٹنگ کے وقت ووٹرز کی بڑی ترجیح یہی مسائل ہیں ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے کسی بیساکھی کی تلاش میں ہیں جبکہ وہ اور اُن کے مخالف جوبائیڈن کی جانب سے اُن کو محتاط طریقہ سے ڈیلنگ کے باعث یہ سہارا اب تک ان کو فراہم نہیں ہوسکا تاہم آخر وقت تک فیصلہ ووٹ کی طاقت کی صورت میں ہی سامنے آسکے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین