• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے ماضی اور حال کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے اور دنیا کو صاف لفظوں میں بتایا ہے کہ برصغیر کے امن کو کس سے، کیوں اور کیا خطرات لاحق ہیں۔ پیر کو اسلام آباد میں پاک افغان سرمایہ کاری فورم 2020کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت سے دوستی کی بہت کوشش کی مگر وہ پاکستان کا دشمن اور نظریاتی طور پر ہمارے خلاف ہے اس لئے ہماری کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہو سکیں۔ وزیراعظم نے بھارت کے اقتدار پر قابض انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسلح ونگ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے بارے میں درست کہا کہ وہ مسلمانوں کی نسل مٹانا چاہتی ہے۔ 72سال میں بھارت کے اندر اِس سے زیادہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والی کوئی دوسری حکومت نہیں آئی۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے جیل خانے میں تبدیل کر دیا اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے افغانستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وزیراعظم نے بھارت کی پاکستان دشمن پالیسی کا جو حوالہ دیا اُس کی اُسی روز قومی سلامتی کے بھارتی مشیر اجیت دوول نے کھل کر تصدیق کردی۔ نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دوول نے دھمکی دی کہ بھارتی سیکورٹی کے لئے جن ممالک سے خطرات سر اُٹھا رہے ہیں، ہم جنگ کو ان کی سرزمین پر لے جائیں گے اور وہاں لڑیںگے۔ اپنے جارحانہ بیانیے کو انہوں نے نیو انڈیا ڈاکٹرائن کا نام دیا اور کہا کہ ہم نے اب جنگ میں پہل نہ کرنے کا نظریہ تبدیل کردیا ہے۔ اُنہوں نے جو کہا اُس کا مطلب اِس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت پاکستان اور چین کے مفادات اور سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے جس کی کوشش وہ ماضی میں کئی بار کر چکا ہے۔ چین سے 1962میں نیفا کے محاذ پر اور حالیہ مہینوں میں لداخ کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کی خلاف ورزیوں کے دوران اس کی جو پٹائی ہوئی اس کا سب کوعلم ہے۔ یہ درست ہے کہ 1971میں اُس نے کچھ ہماری دشمن طاقتوں کی مدد سے اور کچھ ہماری اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے باعث پاکستان کو دو لخت کردیا مگر 1965کی بڑی لڑائی اور مختلف ادوار میں ہونے والی محدود جنگوں، بالخصوص لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزیوں اور نام نہاد سرجیکل اسٹرائیکس کے جواب میں پاک فوج کے ہاتھوں جو شرمناک ہزیمتیں اُٹھانا پڑیں، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کی تقریب میں گیدڑ بھبکیوں کے نتائج کا اجیت دوول کو چند گھنٹے بعد ہی احساس ہو گیا اور اُنہیں ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں کہا گیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ بیان میں چین کا نام لینا اُنہوں نے مناسب سمجھا جس سے بھارت بری طرح خوفزدہ ہے مگر پاکستان کا بھی نام لئے بغیر حوالہ دینا نہ بھولے اور کہا کہ یہ تقریر چین سے متعلق یا کسی ’’مخصوص صورتحال‘‘ کیلئے نہیں، مخصوص صورتحال کا مطلب مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غیرقانونی قبضے کو دوام دینے کی مضحکہ خیز کارروائیوں،مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کیلئے دھڑا دھڑ ہندوئوں کو لاکر بسانے اور کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کے لئے عالمی سطح پر پاکستان کے اقدامات کی طرف اشارے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین دہشت گردی اور دوسرے مذموم مقاصد کیلئے جو استعمال کر رہا ہے‘ وزیراعظم نے اس کا بھی درست حوالہ دیا۔ اُن کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ خطے کا مستقبل امن باہمی تعاون اور تجارت سے ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے‘ پڑوسیوں کے خلاف جارحانہ عزائم سے باز آئے اور خطے کے پونے دو ارب عوام کے لئے امن و ترقی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

تازہ ترین