موجودہ سیاسی حالات کی منظر کشی کی جائے تو واضح نظر آرہا ہے کہ اندرونی و بیرونی دبائو کے باوجود حکمران غیرمعمولی سپورٹ کے باعث بظاہر پریشان نہیں جبکہ اپوزیشن کچھ ہاتھ نہ آنے کے باوجود بھی مطمئن ہے، طاقتور بظاہر لاتعلق مگر بدستور طاقت کا پُراثر استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب تک کھیل کے دونوں فریقوں کا دعویٰ کامیابی کا ہے مگر کامیابی دونوں کے ہاتھوں میں ابھی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ حقائق تلاش کئے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد محض زہر بجھی تقاریر سے ہوشربا انقلاب کا متمنی ہے جبکہ اِس بڑی لڑائی کو فیصلہ کن بنانے کیلئے بنیادیں اور سہارے بہت کمزور ہیں۔ گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے دو بڑے اسٹیک ہولڈرز مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی ایک صفحے پر نہیں جبکہ تیسرے فریق اور اتحاد کے سربراہ مولانا دونوں کے الگ الگ صفحوں کو ایک بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ مولانا خوب ادراک رکھتے ہیں کہ طاقتوروں کی خوشنودی کیسے ممکن ہے اور نئے پاور شیئرنگ فارمولے پر اتفاق رائے کس قیمت پر کیا جا سکتا ہے؟ اپوزیشن کی کشتی پار لگانے کی بھاری ذمہ داری اُٹھائے مولانا بھانپ چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ کی طرح اب بھی دو کشتیوں کی سوار ہے، وہ ایک طرف سندھ کی حکمرانی بچانا چاہتی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کی اتحادی بن کر محض عوام کے اطمینان کی خاطر انقلاب لانے کی بھی اسٹیجنگ کررہی ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ سیاست کے ماہر کھلاڑی اور سب پر بھاری آصف زرداری اب کی بار بھی خوب چال چل گئے، اپوزیشن اتحاد بنتے ہی کچھ کیسز میں ضمانتیں لیکر اسپتال منتقل ہوئے اور اب وہیں سے اپنی کامیاب چالیں چل کر اپنے بیٹے کے روشن مستقبل کی گارنٹی حاصل کررہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر طرف ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد ناکامی کا بدلہ لینے کیلئے ن لیگ کے قائد آپے سے باہر ہو چکے ہیں اور اپنی سیاست اور اقتدار کے محسنوں پر علاج کے بہانے لندن بیٹھ کر وار پر وار کرکے خود کو انقلابی منوانے پرمصر ہیں، اِس صورتحال میں مولانا ن لیگ کی وضاحتی پریس کانفرنسز کو کامیاب کرانے کا فریضہ انجام دینے پر مجبور ہیں جبکہ بعض نقادوں کی نظر میں بڑے میاں کا قومی عزم بھی زرداری صاحب سے مختلف نہیں اور اپنی نااہلی کے بعد دبائو ڈال کر محض اپنی بیٹی کو آئندہ اقتدار کے منصب کے لئے اہل تسلیم کرانے کی تگ ودو میں لگے ہیں۔ بعض محتاط تجزیہ کار متفق ہیں کہ تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے پرانی ’’ریڈ لائنز‘‘ کو توڑ کر اپنی مرضی کی نئی ریڈ لائنز ڈرا کرنے کی بھی کوشش کی جو بظاہر اب تک ناکام نظر آرہی ہے، اپوزیشن کے اِس نئے تجربے کی فی الوقتی ناکامی کی ایک بڑی وجہ جلد بازی میں کرکٹ کے بجائے گالف کے کھلاڑیوں کو کمزور سمجھ کر آسان ہدف بنانا اور اپنی جماعتوں کی پہلے اور دوسرے درجے کی لیڈرشپ کو ’’نئے بیانیے“ پر اعتماد میں نہ لینا بھی ہے، بعض سیاسی ماہرین کو خدشہ ہے کہ گو بڑے بھائی اور بھتیجی کے پُرخار راستے کے چنائو کے برعکس شہباز شریف اپنے بیٹے اور دیگر حامیوں کیساتھ مفاہمتی حکمت کے تحت پس پردہ دبیز خاموشی سے مستقبل کی پیش بندی کررہےہیں مگر موجودہ سیاسی کشمکش میں ن لیگی قیادت کا فوج اور ریاست مخالف بیانیہ پارٹی کی بقا کے لئے بھی بڑا خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ نواز حکومت کے خاتمے کے بعد اور الیکشن کے وقت پارٹی توڑنے کی جو کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئی تھیں اب ’’نئے انقلابی بیانیہ‘‘ کو تسلیم نہ کرنے کے سبب کامیاب ہو سکتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بڑے غیرمتوقع ردِعمل سے بچنے کیلئے پیپلزپارٹی اور مولانا تنقید کے اہداف میں مکمل احتیاط برتنے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں۔ بعض اپوزیشن جماعتوں کو جمہوری انقلاب کی جلدی اس لئے بھی ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں اُن کا مکمل صفایا ہی نہ کردیا جائے۔ اِدھر نئے پاکستان کے کپتان مسلسل کرپشن کی گردان کے ساتھ پرائے دست و بازو سے مخالفین کی ساری وکٹیں اُڑانا چاہتے ہیں مگر بدقسمتی سے کامیابی کسی طور دکھائی نہیں دیتی۔ ایک اہم ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے دبائو سے نکلنے اور پارلیمان میں قانون سازی کے لئے مستقل عددی اکثریت کا بندوبست کرنے کا جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے جس کیلئے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے نئے بیانیہ کے منحرفین بڑے سیاسی خانوادوں کے پرانے کھلاڑیوں کو اپنی پچ پر کھلایا جائے گا۔ سیاسی نقاد سمجھتے ہیں کہ عوامی حقوق کی پاسداری اور حکومتی تبدیلی کا سیدھا اور قانونی و آئینی راستہ تو پارلیمان سے ہوکر گزرتا ہے پھر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف متحد ہوکر عدم اعتماد تحریک لانے کے بجائے سڑکوں پر احتجاج اور اپنی ماضی کی فیورٹ اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کا حربہ کیوں استعمال کررہی ہیں؟ اور اگر یہ تسلسل قائم رہا اور جیل سے جاری شہبازی مفاہمت فارمولا کامیاب نہ ہوا تو حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب اور اپوزیشن کے اتحاد بالخصوص ن لیگ کیلئے سیاسی میدان میں لیول پلیئنگ فیلڈ مزید تنگ ہو سکتی ہے۔