• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداکاری میں مثبت و منفی کرداروں کے علاوہ ایک شعبہ طنز و مزاح کا بھی ہوتا ہے۔ خصوصی اہمیت کا یہ شعبہ جو زیادہ مشکل بھی ہے، مگر کسی بھی فلم کی ناکامی اور کام یابی میں اس کی مسلمہ اہمیت اور عمل دخل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تھیٹر، اسٹیج سے خاموش فلموں کے دور تک اور پھر متکلم یعنی ناطق فلموں کے موجودہ دور تک کامیڈی (طنز و مزاح) کی اہمیت و افادیت کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکا۔ برصغیرپاک و ہند کی تاریخ کا اگر عمیق جائزہ لیاجائے اور اس کی بات مطالعہ کیا جائے تو چھوٹے سے چھوٹےاور بڑے سے بڑے ہدایت کار نے اپنی فلموں میں مزاحیہ ٹریک کو ہمہ وقت اہمیت دی اور اسے فلم کی کہانی کا ہمیشہ ایک اہم جز گردانا۔ 

نور محمد چارلی، غوری، وی ایچ ڈیسائی، خوبکشٹ، مرزا مشرف، بدھو ایڈوانی، گوپی، مجنوں، جوہر، جانی واکر، محمود، یعقوب، اے شاہ شکارپوری و دیگر اپنے اپنے ادوار میں طنز و مزاح کے تناظر میں بے حد مقبول و معروف رہے اور ہمہ گیر شہرت ان سب نے اپنی اپنی منفرد مزاحیہ اداکاری کی بدولت حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستانی فلموں کے ابتدائی دور میں نذر، ظریف، اے شاہ شکار پوری، لہری اور منور ظریف کے بعد جس مزاحیہ اداکار نے پاکستانی فلموں کے اس اہم ترین شعبے کو زندہ و تابندہ رکھا وہ رنگیلا اور صرف رنگیلا تھے، جنہوں نے کم و بیش چالیس سال اس شعبے میں حکم رانی کی اور اپنی منفرد اداکاری سے شائقین فلم کو محظوظ کیا۔ 

ناقدین فلم و فن ان کی کامیڈی کے مخصوص انداز کو بے شک تنقید کی زد میں لائیں، لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ رنگیلا جب بھی پردہ سیمیں پر اپنے خدوخال اور ہلکی سی جسمانی جنبش کے ذریعے جلوہ گر ہوتے تھے، تو شائقین فلم کے سنجیدہ اور اُداس چہرے خوشی سے سرشار ہوجاتے تھے اور یہی رنگیلا کے مزاحیہ اسلوب کی انفرادیت رہی۔ معروف ہدایت کار ایم جے رانا کی پنجابی فلم ’’جٹی‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے اس ہمہ جہت اداکار کا اصل نام محمد سعید خان تھا۔ابتدائی کچھ فلموں میں انہیں چھوٹے موٹے کردار ہی ملے اور بعد ازاں انہوں نے بتدریج اپنا مقام بنانا شروع کیا۔ 

نذر، ظریف کے بعد رنگیلا نے منور ظریف کی موجودگی میں اپنی اہمیت کا احساس دلایا اور بعد میں ان دونوں نے یکجا ہو کر اکثر اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری کی دھاک بٹھادی۔ ایکسٹرا کردار کرنےوالے رنگیلا بالآخر اس فلمی صنعت میں فلم ساز، ہدایت کار، کہانی نویس، نغمہ نگار اور موسیقار کی حیثیت سے بھی سرگرم عمل ہوئے۔ 9؍ مئی 1969ء کا دن رنگیلا کی فنی زندگی کا اہم ترین موڑ ثابت ہوا، جب ان کی بہ حیثیت فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف پہلی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ آل پاکستان ریلیز ہوئی اور اس نے پُورے ملک میں کام یابی کے جھنڈے گاڑے۔ 

اس فلم میں اداکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے گلوکاری کے بھی جوہر دکھائے اور اپنا ہی لکھا ہوا گانا ’’گا میرے منوا گاتا جارے، جانا ہے ہم کا دور‘‘ نہایت دل سوزی کے ساتھ گایا۔ یہ گانا سپر ہٹ ثابت ہوا اور فلم کے ہیرو اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کے ساتھ ہی نام ور ہدایت کار سید سلیمان کی فلم’’جیسے جانتے نہیں‘‘ کی ریلیز ہوئی، لیکن رنگیلا کی فلم نے اسے ٹف ٹائم دیا۔ شنید یہ ہے کہ رنگیلا نے اپنی اس فلم کے لیے اداکار محمد علی سے درخواست کی تھی کہ وہ فلم کے لیے وقت نکالیں اور ہیرو کا کردار کریں، مگر محمد علی نے یہ گمان کرتے ہوئے انکار کیا کہ رنگیلا کی ڈائریکشن میں وہ بھلا کیسے کام کرسکتے ہیں۔ 

بعد ازاں رنگیلا نے اعجاز کو ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا۔ رنگیلا اس فلم کی کام یابی سے ان ہدایت کاروں کی صف میں شامل ہوئے کہ جس کی بہ طور ہدایت کار اولین فلم گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی اور اس اعزاز کے ساتھ ساتھ ایک اور منفرد اعزاز ان کا منتظر تھا، جب ان کی زیر ہدایت بننے والی دوسری فلم ’’رنگیلا‘‘ بھی سپر ہٹ ثابت ہوئی اور گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ اب مزید کام یابی فلم ’’رنگیلا‘‘ کے بعد انہیں ان کی ڈائریکشن میں بننے والی تیسری فلم ’’دل اور دنیا‘‘ کی ملک گیر کام یابی سے حاصل ہوئی۔ اس فلم نے کراچی سرکٹ میں شان دار پلاٹینم جوبلی منائی۔ اپنی تینوں فلموں کو رنگیلا نے ’’رنگیلا پروڈکشنز‘‘ کے بینر تلے آل پاکستان ریلیز کیا۔ رنگین فلم ’’رنگیلا‘‘ 18؍ ستمبر 1970ء کو نمائش کے لیے پیش کئی گئی، اس فلم کی موسیقی بھی کمال احمد نے دی۔ 

کاسٹ میں رنگیلا، نشو، نجم الحسن، سلمی ممتاز، صاعقہ، عقیل، منور ظریف، سلطان راہی شامل تھے، جب کہ معروف ولن مظہر شاہ نے فلم میں ڈبل کردار نبھایا۔ ’’رنگلا‘‘ کے نغمات اسٹریٹ ہٹ ثابت ہوئے اور ان نغمات نے پُورے ملک میں دُھوم مچادی تھی۔ ان نغمات میں خود رنگیلا کے گائے دو نغمات بھی شامل تھے ’’ہم نے جو دیکھے خواب سہانے آج ان کی تعبیر ملی‘‘ اور منور ظریف کے ساتھ’’چھیڑ کوئی سرگم اور راگی چھیڑ کوئی سرگم‘‘ یہ دونوں نغمات موسیقار کمال حمد نے لکھے تھے۔

تصورخانم کا گیت ’’وے سب تو سوہنیاں‘‘ فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا ’’رنگیلا‘‘ کا ٹائٹل رول خود رنگیلا نے ادا کیا اور اس فلم کے لیے انہوں نے بہترین کہانی نویس کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ دل اور دنیا کے لیے انہوں نے بہترین مزاحیہ اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ ’’دیا اور طوفان ‘‘ گولڈن جوبلی اور رنگیلا گولڈن جوبلی اور ہیٹ ٹرک دل اور دنیا سے ہوئی، جو یکم اکتوبر 1971ء کو ریلیز ہوئی۔ 

حبیب، آسیہ (ڈبل کردار) ادیب، رنگیلا، سلطان راہی، چنگیزی، لالہ سدھیر وغیرہ کاسٹ میں شامل تھے۔ اس فلم کی موسیقی بھی کمال احمد نے دی اور رنگیلاسے انہوں نے اپنے لکھے ہوئے یہ دو نغمات ’’میری وفائوں کا یہی صلہ تھا‘‘ اور ‘‘ارے لے چل رے چھیلوا سجنیاں کے گائوں‘‘ خوبی سے گوائے، جب کہ کلیم عثمانی کا لکھا یہ نغمہ بھی رنگیلا سے کمال احمد نے گوایا ’’بتا اے دنیا والے یہ کیسی تیری بستی ہے‘‘ رونا لیلی کا گایا اور سعید گیلانی کا لکھا یہ نغمہ بھی سپرہٹ ثابت ہوا ’’چمپا اور چنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی‘‘ دل اور دنیا نے کراچی سرکٹ میں پلاٹینم جوبلی منائی۔ رنگیلا کی تین بہترین فلموں میں ان کی پہلی تینوں فلمیں شمار کی جاسکتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین