کشمور میں خاتون اور اس کی 4 سالہ بچی کو نوکری کا لالچ دے کر اغوا کے سانحے میں ہونے والی اجتماعی زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سندھ کے شہر کشمور میں ماں بیٹی سے زیادتی کے ملزم کو ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، عدالت نے ملزم کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ملزم رفیق ملک کے مزید 2 ساتھیوں کی تلاش جاری ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ رفیق ملک کشمور کا رہائشی ہے اور وہاں زمیندار ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے چند ٹرینڈز زیر گردش ہیں جس کا استعمال کرتے ہوئے صارفین ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان کے ٹوئٹر ٹرینڈ پینل پر اس وقت ہیش ٹیگ ’سانحہ کشمور‘، ’کشمور‘، ’جسٹس فار علیشہ‘ زیر گردش ہیں۔
کشمور پولیس کے مطابق کراچی کےجناح اسپتال میں کام کرنے والی خاتون کو40ہزار روپے کے عوض کسی کی دیکھ بھال کی نوکری کا لالچ دے کر 25اکتوبر کو کشمور بلوایا گیا، خاتون کی ان افراد سے جناح اسپتال میں ملاقات ہوئی تھی۔
پولیس افسر کے مطابق ملزمان نے خاتون کو 15 روز تک اغوا رکھا۔ اس دوران خاتون اوراس کی بچی کے ساتھ اغوا کار ریپ کرتے رہے۔
پندرہ روز بعد انہوں نے خاتون کو بچی کے بغیر رہا کیا اور کہا کہ وہ کراچی جا کر مزید خواتین لائے ورنہ اس کی بچی کو قتل کردیا جائے گا۔
متاثرہ خاتون نے کشمور پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد پولیس ٹیم نے رفیق ملک کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا جہاں اس نے تین افراد کو دیکھا جن میں سے دو کی شناخت بطور محمد رفیق ملک اور خیراللہ بگٹی ہوئی جبکہ تیسرے کو پہچانا نہیں جاسکا۔
کشمور پولیس نے رفیق ملک کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 376 (ریپ)، 344 (حبس بیجا)، 420 (دھوکہ دہی) اور 34 (مشترکہ ارادہ) کے تحت کیس رجسٹر کیا گیا ہے۔