• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان کے 15نومبر کو ہونے والے قانون ساز اسمبلی کےانتخابات میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی زیرقیادت پاکستان پیپلزپارٹی کے چوتھے دور حکومت میں ’گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء‘ کے نفاذ کے بعد ہونے والے یہ مسلسل تیسرے انتخابات ہیں۔

امیدواروں کی حتمی فہرست کے مطابق 23 حلقوں سے 326 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ ایک حلقہ جی بی اے3 کی فہرست ابھی جاری ہونی ہے۔

انتخابات 2020ء میں حلقہ گلگت 3 وہ واحد حلقہ ہے جہاں امیدوار کے انتقال کے سبب پولنگ ملتوی کر دی گئی ہے اور اب یہاں انتخابات نومبر 22 کو ہونگے۔ سب سے زیادہ 24 امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی نے میدان میں اتارے ہیں۔

حکمراں جماعت تحریک انصاف نے کل 22 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ جس میں دو حلقوں میں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے جبکہ ایک حلقے میں ایم ڈبلیو ایم نے تحریک انصاف کی حمایت کی ہے۔

علاقے کی گزشتہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے 22 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

دوسری منتخب اسمبلی کی پانچ سالہ میعاد 24 جون 2020ء کو مکمل ہوئی اصولی طور پر انتخابات 18 اگست کو ہونے تھے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے انھیں تین ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔


72 ہزار 496 مربع کلومیٹر اور10 اضلاع گلگت، نگر، ہنزہ، اسکردو، کھرمنگ، شگر، استور، دیامر، غذر اور گانچھے شا پر مشتمل گلگت بلتستان کی کل آبادی 22 لاکھ سے زائد ہے۔

علاقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد د 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے جن میں سے 4 لاکھ 5 ہزار 363 مرد جبکہ 3 لاکھ 39 ہزار 998 خواتین ووٹرز ہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی کا جائزہ لیں تو یہ 33 ارکان پر مشتمل ہے، جن میں سے 24 ارکان کا براہ راست انتخاب ہوتا ہے جبکہ خواتین کے لیے 6 اور ٹیکنوکریٹس کی 3 مخصوص نشستیں ہیں۔

12 نومبر2009 ،گلگت بلتستان کے پہلے انتخابات

ایک مشکل جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو برسراقتدار آئے 20 ماہ ہوئے تھے، جب آج سے گیارہ برس قبل 12 نومبر 2009 کو یہاں پہلے انتخابات ہوئے۔

چھ اضلاع پر مشتمل اس موقع پر گلگت بلتستان کی کل آبادی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق11 لاکھ 4 ہزار 190 نفوس پر مشتمل تھی۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد7لاکھ17ہزار286 جس میں مرد ووٹرز 3 لاکھ 84 ہزار 909 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 32 ہزار 377 تھی۔

23 نشستوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے 265 امیدوار مدمقابل تھے، جس میں 99 کا تعلق سیاسی جماعتوں سے جب کہ 165 آزاد حیثیت سے میدان میں موجود تھے۔ ایک حلقہ ایل ایف 19 غدر میں ایم کیو ایم کے امیدوار شیر بہادر کے انتقال کے باعث انتخابات دو ماہ کےلیے ملتوی کردیئے گئے تھے۔

پیپلز پارٹی کے 23، ایم کیو ایم کے 18، مسلم لیگ ن کے15، مسلم لیگ ق کے 14، اے این پی کے 4، جے یو آئی ف کے3، تحریک انصاف کے 2، جماعت اسلامی کا ایک اور قوم پرستوں کے اتحاد گلگت بلتستان ڈیموکریٹک الائنس کے 6 امیدوار انتخابی میدان میں تھے۔ تین خواتین بھی انتخابی امیدوار تھیں۔

ووٹنگ کے لیے چھ اضلاع میں ایک ہزار 22 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے، مردوں کے لیے 258 جب کہ خواتین کے لیے 253 پولنگ اسٹیشنز شامل تھے۔ حفاظتی انتظامات کے لیے تمام اضلاع میں 6 ہزار پولیس اہلکاروں 450 اسکاؤٹس اور ایف سی جوانوں کو تعینات کیا گیا تھا۔

انتخابی نتائج اور انتقال اقتدار

پہلے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سب سے زیادہ 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، مسلم لیگ ن اور ق لیگ نےدو، دو نشستیں جیتیں، متحدہ قومی موومنٹ اور جے یوآئی ف نے ایک ایک او ر تین آزاد امیدوار رکن اسمبلی بنے۔

گیارہ دسمبر 2009 گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا یادگار دن تھا، پیپلز پارٹی کے مہدی شاہ پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، پیپلز پارٹی کے وزیر بیگ اسپیکر اور جمیل احمد ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے، خاص بات یہ تھی کہ یہ تینوں بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ اسی روز نومنتخب وزیراعلیٰ سے قائم مقام گورنر قمر زمان کائرہ نے حلف لیا تھا۔

8 جون 2015، گلگت بلتستان کے دوسرے انتخابات

اسمبلی مدت مکمل ہونے کے بعد ا س وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ ن کی حکومت میں گلگت بلتستان میں دوسرے انتخابات ہوئے۔ اس موقع پر سات اضلاع میں 24 نشستوں پر 268 امیدوار مدمقابل تھے۔ جس میں 16چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار تھے۔

انتخابات میں ن لیگ کے 24، تحریک انصاف کے 24، پیپلز پارٹی کے 22، مجلس وحدت المسلین نے 15، آل پاکستان مسلم لیگ نے 13، تحریک اسلامی نے 12، جے یو آئی ف نے 10، ایم کیو ایم نے 9 عوامی تحریک نے 7 اور جماعت اسلامی نے 6 نشستوں پر انتخاب لڑرہی تھی۔ گلگت بلتستان قومی موومنٹ نے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ 7 اضلاع دیامر، گلگت، غذر، گانچھے، ہنزہ نگر اور استور مشتمل تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے حفاظتی انتظامات کے تحت 6 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے جس میں فوج کے 55 سو جوان ان کی معاونت کے لیے 4 ہزار 200 پولیس اہلکار، اس کے علاوہ رینجرز اور گلگت بلتستان اسکاؤٹس کے اہلکار شامل تھے۔ پاک آرمی کے 8 یونٹس کو 1143 پولنگ اسٹیشن پرتعینات کیا گیا تھا، ان پر تعینات فوجی افسروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے تھے۔ پولنگ اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے۔

انتخابی نتائج اور انتقال اقتدار

گزشتہ انتخابی روایت کی طرح اس مرتبہ بھی اس وقت کی حکمراں جماعت ن لیگ نے15میں کامیابی حاصل کی اور قانون ساز اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، وحدت المسلمین اسلامی تحریک نے دو، دو، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جے یوآئی نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ جب کہ دو آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے تھے۔ جس میں سے ایک نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ پی پی کے سابق وزیراعلیٰ مہدی شاہ بھی انتخاب میں ناکام ہوئے تھے۔ مجموعی طور پر انتخابات پرامن تھے۔

26 جون 2015 کو مسلم لیگ ن کے حفیظ الرحمن گلگت بلتستان کے دوسرے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، جبکہ فدا محمد خان نوشاد اور جعفراللّٰہ خان اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس مرتبہ بھی گزشتہ کی طرح ان تمام کا انتخاب بھی بلامقابلہ تھا۔

تازہ ترین