پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں ایسے اختلافات سامنے آرہے ہیں، جن سے نہ صرف تحریک کا رُخ متعین نہیں ہو رہا بلکہ اپوزیشن کے اس سیاسی اتحاد کے برقرار رہنے کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سے پاکستان میں بطور ادارہ سیاست کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس ممکنہ صورت حال کا تدارک بہت ضروری ہے۔
پہلے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے بیان پر اختلاف پیدا ہوا۔ یہ اختلاف پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان پیدا ہوا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کے بیان کی تائید نہیں کی اور کہا کہ اداروں کی شخصیات پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔ اگر بین السطور بلاول بھٹو زرداری نے یہ پیغام دیا کہ موجودہ صورت حال کی ذمہ داری صرف چند شخصیات پر نہیں ڈالی جا سکتی لیکن بعض حلقے بلاول بھٹو کے اس بیان کو اداروں کی ان اہم شخصیات کے بارے میں ان کے مفاہمی رویے سے تعبیر کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان دوسرا اختلاف اس وقت سامنے آیا، جب انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کے ساتھ 19 اکتوبر 2020 ء کو کراچی میں پیش آنے والے واقعہ پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قائم کردہ کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ سامنے آئی، جس کی روشنی میں آئی ایس آئی اور سندھ رینجرز کے ذمہ دار افسروں کو ان کی ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا اور ان کے خلاف مزید کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ کو خوش آئند قرار دیا جبکہ میاں محمد نواز شریف نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
یہ اختلافات دراصل اس بنیادی سوال پر ہیں کہ سیاسی تحریک کے دوران اسٹیبلشمنٹ اور اداروں سے متعلق کیا رویہ اور کیا بیانیہ ہونا چاہئے؟ یہ بنیادی سوال اگرچہ قیام پاکستان کے بعد ہر اس سیاسی تحریک میں رہا ہے، جسے اسٹیبلشمنٹ کی بظاہر حمایت حاصل نہیں رہی ہے یا جس کا ظاہری بیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے۔ تاہم ماضی کی ایسی تحریکوں میں اس بنیادی سوال پر اس طرح کھل کر بات نہیں ہوئی، جس طرح آج ہو رہی ہے، ماضی میں بھی اس بنیادی سوال پر اختلاف ہوتے تھے، جو یوں ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ میڈیا میں بھی اس طرح کھل کر باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ آج سوشل میڈیا میں لوگوں کو کھل کر اور لگی لپٹی کے بغیر باتیں کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ ماضی میں بھی سیاسی اتحادوں میں شامل سیاسی جماعتیں سیاسی تحریک کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ اور اداروں سے اپنے اپنے معاملات طے کرتی رہی ہیں یا اس کے برعکس اسٹیبلشمنٹ اور ادارے بھی سیاسی تحریک کو کمزور کرنے یا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ الگ الگ رابطہ استوار کرتے تھے۔ اندرونی رابطوں اور ڈیلز کے نتیجے میں اتحاد میں شامل کچھ سیاسی جماعتوں کو مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں فائدہ بھی ضرور ہوا۔ اس کے باوجود بعض سیاسی تحریکوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا سفر آگے بڑھا اور یہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی ایک ایسی حقیقت ہے، جو تمام تر تلخ حقائق کے باوجود اُمید افزا ہے۔
آج تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی اور عالمی صورت حال میں پاکستان داخلی طور پر اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ بطور ادارہ سیاست کو درپیش خطرات کو سیاسی جماعتوں کے انفرادی مفادات کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جائے۔ کسی بھی ریاست کی بقا کے لیے باقی اداروں کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن کسی ریاست یا قوم کے لیے سب سے زیادہ اہم سیاسی ادارہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت حکمران سیاسی جماعت تحریک انصاف نے دیگر سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
’’سیاست دان کرپٹ ہیں‘‘ والے بیانیےنے پاکستان میں سیاسی ادارے کو کمزور کیا ہے، جو ابھی تک جڑیں نہیں پکڑ پایا تھا۔ خود تحریک انصاف حکومت کی خراب کارکردگی نے سیاست پر لوگوں کا اعتبار کمزور کر دیا ہے اور ایک ایسا سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے، جو پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے اختلافات کی وجہ سے سیاسی جماعتیں پُرنہیں کر سکیں گی۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جو حقائق ہیں، انہیں برملا تسلیم کرنا چاہئے۔ آج کے حالات میں پی ڈی ایم پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اداروں سے ٹکراؤ یا مفاہمت کے حوالے سے کسی بھی طرح کی انتہا پسندانہ سوچ نقصان دہ ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوںکو آئندہ کے سیٹ اپ میں اپنی پوزیشن کی ضرور فکر ہونی چاہئے لیکن اس سے زیادہ جمہوری نظام اور سیاسی ادارے کے تحفظ اور اسے مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ پاکستان کے ماضی کے تجربات اور پاکستان جیسے ملکوں کی سیاسی قوتوں کے تجربات سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔