جام سفال ٹوٹ جائے تو بازار سے دوسرا خرید کر لایا جا سکتا ہے ۔اس بات پر مطمئن و نازاں غالب بھی تھے لیکن قوم کا دل ،اس کی امیدیں ،اس کے خواب اور اس کا اعتبار مٹی کا پیالہ نہیں جسے بے نیازی سے توڑ دیا جائے اور پھر بازار لا کر خریداروں کا انتظار کیا جائے ۔آج پاکستان کے انتخابی اور سیاسی ماحول کی بھی یہی صورت حال ہے جہاں قوم کے جذبات ،امیدوں، خوابوں اور جانوں کو مٹی کا کھلونا سمجھ کر کھیلنے والے پھر بازار سجائے بیٹھے ہیں ۔ سبز موسم کے خواب بیچنے والے کیا نہیں جانتے کہ کروڑوں آنکھوں نے کتنا لہو رویا ہے کہ جس کی داستان چمن کے پتے پتے ،بوٹے بوٹے پر لکھی ہوئی ہے ۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
قوم کا دل ،امیدیں اوراعتبار ٹوٹ جائے تو اس بازار کو خریدار ملنا مشکل ہوجاتے ہیں جسے آج سیاستدان سجائے بیٹھے ہیں ۔الیکشن میں چند دن باقی ہیں مگر سیاسی بازار کی رونقیں مفقود ہیں ۔انتخابی نعروں کی گونج بموں کے دھماکوں میں دب کر رہ گئی ہے ۔ لیکن ان ہی سہمے ہوئے حالات میں جہاں عوام گھروں سے جسم و جاں بچاتے بچاتے نکلتے ہیں ووٹوں کے طلب گار کچھ خواب دکھاتے کچھ امیدیں جگاتے ان کے پیچھے پیچھے صدا لگاتے چلے آرہے ہیں ۔ موسم بدلے گا تو طالب و مطلوب کا رنگ بدلے گا ، سمتیں بھی بدل جائیں گی آج جو پیچھے پیچھے ہیں کل وہ آگے بہت آگے اور عام آدمی کی فریاد اور پہنچ سے بہت دور ہوں گے۔ اندیشے ہمیشہ ماضی کے جھروکوں سے اور امیدیں مستقبل کے دروازوں سے جھانکتی ہیں ۔بہرحال خوش امیدی کفر سے بچاتی ہے پھر بھی
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
2013ء کا سال برطانیہ کے لوکل الیکشن کے حوالے سے لیبر پارٹی کیلئے تو اچھا ثابت ہوگیا اور وہ برطانیہ کی لوکل کونسلوں کے انتخابات میں سب پر بازی لے گئی ہے جبکہ ٹوری اور لبرل ڈیموکریٹک کے لئے یہ سال انتخابی نتائج کے حوالے سے یوں اچھا ثابت نہیں ہوا کہ عشاق یعنی ووٹرز نے ان بتوں کو ان کی بے فیض پالیسیوں کی وجہ سے مسترد کر دیا ہے ۔
ادھر پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی جو جلسوں جلوسوں پر مبنی ہوتی ہے دہشت گردی اور بدامنی کی فضا میں پھیکی پھیکی سی نظر آرہی ہے اور سارا زور ٹیلی ویژن اور اخباری اشتہارات پر ہے البتہ شطرنج کی بساط پر سیاسی چالیں چلنے والے بہت مستعد ہیں ۔ن لیگ کے شیرکو بلا بازوں اور تیر اندازوں نے گھیر رکھا ہے ۔ میدان سیاست میں جلسہ گاہوں اور انتخابی تقریروں سے جو رونق نظر آنی چاہئے وہ صرف چند جماعتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔وہ آزادانہ سیاسی سرگرمیاں جو انتخابی ماحول کا طرہٴ امتیاز ہوتی ہیں معد وم ہیں اور انتخابی مراکز و دفاتر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں ۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے مصائب میں گھرے عوام جو لاشیں اٹھا اٹھا کر نیم جان ہوچکے ہیں اور جنھیں سابقہ جمہوری دور میں بدامنی اور انتشار کے ساتھ گٹھڑی بھر مسائل ملے ہیں ۔مصائب اور مسائل کے جس گٹھر کو وہ سر پر رکھے گھوم رہے ہیں اس کے سر کی ضمانت دینے والا بھی کوئی نہیں کہ وہ سر سلامت کب تک رہے گا اور اب تو سر پر انتخاب کا دھماکہ دار موسم بھی آ کھڑا ہوا ہے ۔ پیچھے گردن موڑ کر دیکھتے ہیں تو گزشتہ حکومتوں کی لوٹ مار اور انتشار کی تاریخ بھی زندہ اور مردہ لوگوں کے مزاروں کی لوح پر لکھی نظر آتی ہے۔ انتخابی مہم کے آسمان پر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں ۔دہشت گردی کی آندھی کا رخ پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کی جانب ہے جبکہ ن لیگ اور عمران خان کی انتخابی مہم کے لیے آسمان صا ف ہے ، ایسے میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ انتخابی موسم میں کچھ جماعتوں کے ساتھ ہوا کو دشمنی کیوں ہے جبکہ کچھ ہوا کی برہمی سے محفوظ ہیں اور دہشت گرد ہوا کے گرم جھونکے ان کے قریب سے بھی نہیں گزر رہے۔ایسے محفوظ جلسوں کے لیڈران کے بلند و بالا دعوے سنے کے بعد محبوب عزمی کا یہ قطعہ یاد آگیا:
ایک لیڈر نے خوب فرمایا
پہلے لوگوں نے خوب کھایا ہے
ہم کو بھی اب کی بار موقع دیں
ہم نے اب تک تو دکھ اٹھایا ہے
تادم تحریر تازہ خبریں یہ ہیں کہ بینظیر بھٹو کیس کے سرکاری وکیل مارے جاچکے ہیں ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر کے قریب کئی بم کے دھماکے ہو چکے ہیں ۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں اے این پی اور قبائلی رہنماوٴں کے گھروں کے باہر بھی بم دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے ۔سیکورٹی فورسز کی گاڑیاں دہشت گردوں کا نشانہ بن رہی ہیں ۔ تخریب کاری اور دہشت گردی کی اس فضا میں کس کس کے جام ٹوٹیں گے ان حالات میں غالب کی طرح پاکستان کا عام شہری یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ :
اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جام جم سے تو میرا جام سفال اچھا ہے
ویسے تو آج ایک عام پاکستانی کی جان جام سفال سے بھی سستی ہوچکی ہے ۔ایسی فضا میں 11 مئی کے بعد شیر دھاڑے گا ، یا بلا لہرائے گا یا تیر چلے گا ” آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا “۔
ادھر لاہور سے خبر یہ ہے کہ تقریبا ایک ہزار سرکاری ملازمین الیکشن میں ڈیوٹی دینے سے گھبرا رہے تھے لہٰذا جان چھڑانے کے لئے شیر خوار بچوں کو سنبھالنے کا بہانہ بنا کر چھٹی کی درخواست بھی دے چکے تھے۔ بات بھی سچ ہے کہ” جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں “غالب کا تو خیال تھا کہ”جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“دین و ایماں سے تو کب کے ہم سب ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب”جو بچا ہے اس کو ہی لٹانے کے لئے جائیں گے ، آخری گیت سنانے کے لئے جائیں گے“ لیکن ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوے یہ سندیسہ بجھوادیا :
قید حیات و بند غم اصل میں دونو ں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
چھٹیاں منسوخ ہو گئیں۔اب 11 مئی کو شیر خوار بچوں کو اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر، سر پر کفن باندھ کر ڈیوٹی پر جانا ہو گا۔ یہی پیغام ان اٹھارہ کروڑ کے لیے بھی ہے جنہیں الیکشن کے بعد بھول جانے والوں کی خواہش یہ ہی رہی ہے کہ ” خاک ہونے والوں کو خاک بھی نہ سمجھا جائے “۔
جمہوریت خزاں کی زرد شال پہنے عوام کی دہلیز پر کھڑی ہے اسے اپنے لہو سے سیچیئے اور آنسووٴں کا خراج پیش کیجیے۔فرض تو بنتا ہے آپ کا ۔
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسووٴں سے ہرا کرو