جنگ، جیو میڈیا گروپ کے چیئرمین اور ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن تقریباً 8 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بالآخر ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے سپریم کورٹ سے ضمانت کے حصول کے لیے قانون کا طویل راستہ اختیار کیا اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اُنہوں نے کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس سے نہ صرف وہ خود سرخرو ہوئے بلکہ ان کی حمایت میں آواز بلند کرنے والی صحافت کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیمیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی اور دیگر تنظیمیں بھی سرخرو ہوئیں، اس عرصے میں دنیا کو یہ بھی یقین ہوگیا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے قائم کیا گیاریفرنس عدالتوں میں بھی کوئی ٹھوس اور قانونی جواز مہیا نہیں کر سکا۔ دنیا اب اس گرفتاری کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی کوششوں سے جوڑنے میں حق بجانب لگتی ہے۔
نیب نے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف 34 سال پرانے ایک پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں ریفرنس دائر کرکے 8 ماہ قبل انہیں گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُنہوں نے 34 سال پہلے جو اراضی خریدی تھی، اس کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت ادا نہیں کی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف آواز بلند کرنے والے حلقوں نے اس ریفرنس کو نہ صرف انتہائی کمزور قرار دیا بلکہ اسے کسی کے ایما پر انتقامی کارروائی کے لیے قائم کردہ ریفرنس سے تعبیر کیا کیونکہ اس ملک میں ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اور ادارے ہوں گے۔ جنہوں نے نیب کی دانست میں مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر اراضی خریدی ہو گی۔ ان کے خلاف ریفرنسز کیوں نہیں بنے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جس ادارے نے زمین فروخت کی، اس نے 34 سال میں مارکیٹ ویلیو کے مطابق باقی رقم دینے کا کبھی مطالبہ کیا اور کیا اس نے نیب سے کہا کہ وہ کارروائی کرے؟ کیا باقی رقم کی وصولی کے لیے نیب نے کبھی قانونی نوٹس دیا؟ جب ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر گرفتاری کا کیا جواز ہے؟ اس طرح کے ریمارکس اور سوالات میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریفرنس میں ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک ہوتے رہے، جن کا نیب نے کوئی معقول جواب نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ رائے پختہ ہوئی کہ میر شکیل الرحمٰن کو اذیت اور تکلیف دینے کا سبب کچھ اور ہے۔ بقول کسے ’’ثابت ہوا بے گنہی عین جرم ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ، جیو میڈیا گروپ نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا گروپ ہے بلکہ اس کی اپنی ساکھ ہے۔ اس کا سبب اس میڈیا گروپ کی وہ پالیسیاں ہیں، جن میں اعلیٰ صحافتی اصولوں اور اقدار کو مدنظر رکھا جاتا ہے، غیر جانبداری کو یقینی بنایا جاتا ہے اور حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے ہر قسم کے دباؤ کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس میڈیا گروپ کے بانی میر خلیل الرحمن مرحوم نے یہ پالیسیاں مرتب کی تھیں اور ان کی بنیاد پر گروپ کے تمام اخبارات اور جرائد نے لوگوں کا اعتبار حاصل کیا۔ یہ واحدمیڈیا گروپ ہے، جہاں ان تمام گروہوں اور طبقات کے موقف کو بھی جگہ ملتی ہے، جنہیں کوئی اور میڈیا گروپ اکا موڈیٹ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ یہ واحد میڈیا گروپ ہے، جس میں ان حقائق کو اُجاگر کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، جنہیں چھپانے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ یہ واحد میڈیا گروپ ہے، جس میں اپنے خلاف بھی خبریں شائع یا نشر ہوتی ہیں تاکہ دنیا آگاہ رہے کہ خبریں چھپائی نہیں جا سکتی ہیں۔ جنگ، جیو واحد میڈیا گروپ ہے، جس کے اداریہ، ادارتی نوٹ اور ادارے کی طرف سے بولنے والے اینکر پرسنز اپنی رائے کے اظہار میں غیر جانبداری اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ میر خلیل الرحمٰن کی رحلت کے بعد ان کے صاحبزادوں میر جاوید رحمٰن اور میر شکیل الرحمٰن نے ان پالیسیوں کو نہ صرف جاری و ساری رکھا بلکہ میڈیا میں انقلاب آنے کے باوجود ان پالیسیوں کا تحفظ کیا اور اس کے لیے تمام آزمائشوں کا مقابلہ کیا۔ میر شکیل الرحمٰن نے پرنٹ میڈیا کی امپائر کو الیکٹرانک میڈیا اور پھر ڈیجیٹل میڈیا تک وسعت دی۔ بزنس اور کارپوریٹ ازم کی مجبوریوں کے باوجود اعلیٰ صحافتی اقدار پر مبنی پالیسیوں کی بنیاد پر لوگوں کا اعتبار اور اعتماد قائم رکھا۔ اُنہوں نے آزادی صحافت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو آج ان کے میڈیا گروپ کی یہ ساکھ نہ ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں کچھ دنوں کے لیے جیو بند ہوا تھا تو لوگوں نے دیگر نیوز چینلز بھی دیکھنا چھوڑ دیئے تھے۔ آج بھی لوگ خبروں کی تصدیق جنگ اور جیو سے کرتے ہیں اور حالات کا ادراک کرنے کے لیے جنگ میں شائع ہونے والے کالموں اور جیو کے ٹاک شوز پر انحصار کرتے ہیں۔
مجھے جنگ میں کالم نگاری کرتے ہوئے 26 سال ہوگئے ہیں، اس عرصے میں کبھی میر شکیل الرحمٰن یا جنگ کی انتظامیہ کی طرف سے ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں موضوع پر لکھیں یا نہ لکھیں، ایسے کالم بھی شائع کیے گئے، جو شاید دوسرا میڈیا گروپ شائع کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ جنگ سے 26سالہ رفاقت اور جنگ جیو گروپ کے مالکان خصوصاً میر شکیل الرحمٰن کی اعلیٰ صحافتی اقدار کیلئے کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنے ضمیر کے اطمینان سے یہ بات کر رہا ہوں کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف 34سال پرانے معاملے میں ریفرنس کا اب تک جتنا ٹرائل ہوا ہے، اس میں میر شکیل الرحمٰن آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے لیے تکالیف برداشت کرنے والوں کے ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں اور حقیقی ٹرائل حکومت وقت اور اس کے نظام احتساب کا ہوا ہے ۔