کہتے ہیں ہرشاعر حساس ہوتا ہے اور دو صورتوں میں اس پر شعر کا نزول لازمی ہے یا تو واردات قلبی کی صورت ہو یا کوئی خارجی اثر ہو جو میر کی طرح دلی اور دل کا ایک حال کردے۔ چوٹ لگی عمران خان کو تودردپوری قوم کی طرح ہم نے بھی محسوس کیا اور جب ہم نے ان لیڈران کو عمران خان کی عیادت کرتے اور انہیں پھول اور دعائیں بھیجتے دیکھا جودو دن پیشتر ایک دوسرے پر لفظوں کی سنگباری میں مصروف تھے تو استعجابی کیفت میں یہ تک بندانہ خیال زبان پر آگیا۔
ابھر آئی قوت اخوت لیڈران
لفٹر سے گرے جب عمران خان
عمران خان کے لفٹر سے گرنے کے بعد ہمارے لیڈران میں جو اخلاق اور اتحاد کی بلند پروازی نظر آئی اس نے پوری قوم کو حیرت اور انبساط کے جذبات سے سرشار کردیااور امید جاگی کہ اپنے سیاسی حریف کو پھول اور دعائیں بھیجنے والے اسی اعلیٰ ظرفی کو برقرار رکھتے ہوئے آنے والے وقت میں اخوت ومحبت کے پھولوں کے ساتہ قوم کو ایک لڑی میں پرودیں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان بھی یہ محبت و اخوت رہے۔ قارئین جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک 17کروڑ 90 لاکھ بیلٹ پیپرز پر قوم اپنی تقدیر کی مہر ثبت کرچکی ہوگی اور چنیدہ قیادت سامنے آچکی ہوگی اور پاکستان کے شہروں اور دیہات میں بسنے والے11مئی کو اپنی قیادت کا چناؤ کرچکے ہونگے لفظ ”چناؤ“ کی تشریح اور تعریف پاکستان کے جمہوری اور سیاسی تناظر میں انور مقصود نے اپنے مخصوص اور دلچسپ انداز میں کی ہے۔ ان کے مطابق ”ہمیں سیاست دانوں کو اس طرح چننا چاہے جیسے اکبر نے انارکلی کو چنا تھا۔“انارکلی اگر سلیم کے عشق میں گرفتار نہ ہوتی اور اپنی اوقات میں رہتی تو دیوار میں کیوں چنی جاتی۔ لیکن بات تو یہ ہے کہ عشق نہ پوچھے ذات ہر عاشق کا نظریہ عشق یہی رہا ہے کہ ”عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا“سیاسی عاشقوں نے بھی اپنے اپنے زمانہ عشق میں خوب مزے لوٹے اور یوں زیست کا خوب لطف اٹھایا مگر طبیعت کبھی بھری نہیں بلکہ ان میں زیادہ تر تو وہ تھے جو جاتی کرسی دیکھ کرآہیں بھرتے رہے کہ ”ابھی نہ جاؤ چھوڑ کے کہ دل ابھی بھرا نہیں“ کرسی اقتدار کے حصول کی آرزو اور اس لیلیٰ کی ناز برداریوں کی خواہش تمام سیاسی عاشقوں کے دل میں کروٹیں لیتی ہے لہذا 11 مئی کے بعد یہ عشق اپنی جولانی پر ہوگا اور طبیعت روانی پر۔ قوت اخوت لیڈران کے مظاہرے اور مناظرے ہم بعداز الیکشن بھی دیکھیں گے کیوں کہ ایک بات تو واضح ہے کہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں کو مخلوط حکومت بنانی پڑے گی اور اس قوت اخوت کا احوال اسی وقت کھلے گا کہ کرسیاں چلتی ہیں یا پارٹیاں بدلتی ہیں ۔ دال جو تیوں میں بٹتی ہے یا ذاتی، گروہی اور وقتی مصلحتوں کی تھالی میں رکھی ریوڑیوں کا بندر بانٹ ہوتا ہے۔
بہرحال عمران خان کے زخمی ہونے کے بعد لیڈران کا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ سیاسی بلوغت اور رواداری کی ایک اچھی مثال ہے۔ پوری پاکستانی قوم کے دل میں عمران خان کے لئے ہمدردی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے وہ ہماری قومی جذباتیت اور نرم دلی کی علامت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس جذبہ ہمدردی سے مغلوب ہوکر لوگ انہیں ووٹ بھی دیں گے ۔ ہماری پوری قومی جذباتی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم کے جذبات میں ابال جس تیزی سے آتا ہے اس تیزی سے بیٹھ بھی جاتا ہے۔ ہم اپنی قوم کو جتنا سیدھا اور جذباتی سمجھتے ہیں وہ دراصل ایسی ہے نہیں۔ حالات کی بھٹی میں تپ کر قومی شعور اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی واضح ہے کہ عمران خان پہلے ہی نوجوانوں کو تبدیلی کی دلکش نعرے کا اسیر کرچکے ہیں جس کے بعد انہیں کسی ہمدردانہ بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی ہے۔
اس وقت جب کہ انتخابات ہوگئے ہیں پاکستانی قوم کے فکروتذبذب اور اس دوشیزہ کی گومگوں حالت میں کوئی فرق نہیں جسے عمر بلوغت تک پہنچنے کے بعد اپنے نصیب نامہ پر دستخط کرنے کا مرحلہ درپیش ہواس کے تمام خواستگار ان کے ظاہری اور باطنی محاسن میں بھی کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا ہو۔ سب کو مسترد کردے تو کنواری رہ جاتی ہے ، چار وناچار کسی ایک کا انتخاب تو کرنا ہے کیوں کہ کنواری جمہوریت سے بیاہی جمہوریت بہرحال اچھی ہے کہ کم ازکم بری نظروں سے تو بچی رہتی ہے۔11 مئی کے انتخابات پاکستان کی انتخابی سیاسی اور جمہوری تاریخ کا ایک اہم موڑ ہیں جہاں سے ایک نئی سمت کا تعین ہوگا۔ خدا کرے کہ یہ نیا جمہوری سفر اس خونی باب کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہوجو ماضی قریب اور ماضی بعید کی خون آشام تصویر ہے۔
اپنے وطن میں امن وسکون ہے گھر گھر میں خوش حالی ہے
ہموطنو! یہ خواب سہانا ہم نے اکثر دیکھا ہے