پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن ‘‘ کی طرف جا رہے ہیں اور وہ دونوں ایسے بیانیےمیں اُلجھے ہوئے ہیں، جو کسی نہ کسی طرح ایسی غیر سیاسی قوتوں کے مفادات کو پورا کرتا ہے، جنہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ دونوں کا کوئی ایسا بیانیہ نہیں ہے، جس سے پتہ چلتا ہو کہ ان کے اختلافات ایسے قومی اور عوامی ایشوز پر ہیں، جو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام ، غربت و بے روزگاری اور معاشی بحران کے حل سے متعلق ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن کے اس تصادم کا نتیجہ جو بھی نکلے گا، وہ پرانی سیاست کا تسلسل ہوگا۔ یعنی جو بھی آئندہ نیا سیاسی منظر نامہ ہوگا، اس میں یہی کشمکش نظر آئے گی جبکہ پاکستان کے عوام کی زندگی مسلسل اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی طرف سے آج لاہور میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ احتجاجی جلسوں کے سلسلے کا پی ڈی ایم کی طرف سے لاہور میں یہ آخری جلسہ ہوگا۔ جلسے سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے لوگوں کو بہت متحرک کیا اور جلسے کی کامیابی کے لیے زمین ہموار کر دی۔ حکومت اور اس کے ساتھ ’’ایک پیج‘‘ پر جو قوتیں ہیں، وہ پی ڈی ایم کے جلسوں کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھتی ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے جواباً عوامی طاقت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ صرف ماضی کے اپنے جلسوں کا حوالہ دے رہی ہے۔ اس سے دنیا میں یہ تاثر گیا ہے کہ پی ڈی ایم کو بہت حد تک حکومت کے خلاف عوامی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر لوگوں کی طرف سے پہلی بار حکومت کی طرف سے مذاکرات کاعندیہ دیا جا رہا ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے رہنما ؤں نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ کے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے۔ دونوں کے امکانی مذاکراتی ایجنڈے میں قومی اور عوامی ایشوز کی کوئی بات نہیں ہے۔
اپوزیشن کے بارے میں حکومت کا بیانیہ صرف یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت کرپٹ ہے۔ وہ صرف اپنے مقدمات ختم کرانے کے لیے تحریک چلا رہی ہے۔ یہ دراصل پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا 1947ء سے بیانیہ ہے تاکہ سیاست اور سیاست دانوں کو گالی بنا دیا جائے اور اس ملک پر اپنی مرضی چلائی جائے۔ کرپشن کے الزامات تو تحریک انصاف کے لوگوں پر بھی ہیں اور کرپٹ صرف سیاست دان ہی نہیں ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کا بیانیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے اور وزیراعظم عمران خان سلیکٹڈ ہیں۔ اپوزیشنگویا یہ چاہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان ہر حال میں چلے جائیں۔ پی ڈی ایم میں شامل زیادہ تر جماعتیں نئے انتخابات کی حامی نہیں ہیں۔ یہ بھی وقت بتائے گا کہ وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے پی ڈی ایم کے ایجنڈے کا اور کون حامی تھا کیونکہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ کہیں اور بھی سوالات اَٹھائے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کا دخل زیادہ رہا ہے۔ کبھی براہ راست فوجی حکومت ہوتی ہے اور کبھی ان کی حمایت یافتہ سیاسی حکومت۔ پھر کچھ عرصے کے لیے ایسا سیاسی وقفہ آتا ہے، جس میں بنیادی دھارے کی سیاسی قوتیں کسی حد تک مطمئن نظر آتی ہیں لیکن ان کی حکومتیں بھی مستحکم نہیں ہوتی ہیں۔ ہر دور میں اپوزیشن حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک چلاتی ہے اور وہ اسی میں اُلجھی ہوئی ہے۔ پاکستان کے خارجی، داخلی اور قومی سلامتی کے ایشوز سمیت عوامی مسائل کا ایجنڈا کبھی کسی فورم پر ہونے والے مذاکرات میں نہیں آیا اور شاید یہ ایجنڈا آنے ہی نہیں دیا گیا۔اسی کشمکش میں اب حالات خرابی بسیار تک پہنچ گئے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کی ایک رپورٹ میں یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے مقابلے میں ترقی کی شرح بہت کم ہے۔ آئندہ پانچ سال تک اقتصادی ترقی حوصلہ افزا نہیں ہو گی۔ 2050ء میں پاکستان کی آبادی 38کروڑ 30 لاکھ تک جا پہنچے گی اور اس آبادی کی ضروریات خصوصاً روزگار کی ضرورت سے نمٹنے کیلئے آئندہ 30سالوں تک اقتصادی ترقی کی شرح 7 سے 8 فیصد تک ہونی چاہئے۔ یہ تو حکومت پاکستان کی اپنی رپورٹ ہے، جس میں بہت نرم الفاظ میں خطرات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کی معیشت اور لوگوں کے مسائل پر جو رپورٹس مرتب کر رہے ہیں، وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔
حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک 73 سال بعد جاری ہے۔ سیاسی قوتیں اس سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ پاکستان خارجی اور داخلی مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ لوگ سیاست سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ کہتی ہے۔ وہ بھی لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اُترے ۔ اس وقت انتہا پسند اور مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں عوام کی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں، اپوزیشن کو اہم قومی اور عوامی ایشوز پر مذاکرات کا ایجنڈا مرتب کرنا چاہئے۔ اگر کوئی ان سے مذاکرات کرتا ہے تو یہ ایجنڈا زیر بحث لانا چاہئے اور اگر کوئی ان سے مذاکرات نہیں کرتا تو اپنا سیاسی بیانیہ ان قومی اور عوامی ایشوز تک وسیع کرنا چاہئے اور عوام کو ایک بڑے ایجنڈے پر متحرک کرنا چاہئے ۔ غربت انتہا کو پہنچ چکی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ۔