• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعلیٰ بزدار اپوزیشن کے استعفے رکوانے کیلئے سرگرم

سیاسی محاذ پر بڑھتی ہوئی حدت آنے والے دنوں میں خطرے کی کئی گھنٹیاں بجا سکتی ہے، خاص طور پر ملتان اور لاہور کے جلسوں کے بعد بعد ان جلسوں میں استعمال کیا گیا بیانیہ ، ایک نئے انتشار کی گھنٹی بجا رہا ہے ، اس بات سے قطع نظر کہ پی ڈی ایم کے جلسے عوامی شرکت کے لحاظ سے کامیاب رہے ہیں یا ناکام، اب بات اس نکتہ کی ہے کہ پی ڈی ایم والے اپنے جلسوں میں کنہیں مخاطب کرتے رہے ہیں۔ 

اب وہ کن سے اس تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ،جو ملک میں حقیقی جمہوریت اور سول بالادستی کی بنیاد ہے ،حکومت نے اچھا کیا کہ لاہور جلسہ میں ملتان جیسے احمقانہ اقدامات نہیں اٹھائے اور جلسہ کے لیے فری ہینڈ دیا ،وگرنہ صورتحال شاید ایسی نہ ہوتی ،جواب نظر آ رہی ہے ، اس جلسہ میں ملتان، جنوبی پنجاب سے بھی مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمیعت علماء اسلام کے رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی ، تاہم یہاں سے جانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی،البتہ اگر راستے میں رکاوٹیں موجود ہوتیں ، تو یہ تاثر پھیل جاتا کہ حکومت لاہور کے جلسے میں دوسرے شہروں سے آنے والوں کو روک رہی ہے، تو شاید زیادہ بڑی تعداد میں ان سیاسی جماعتوں کے کارکن اور رہنما لاہور پہنچنے کی کوشش کرتے۔

لاہور کے جلسے میں پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے جو اظہار خیال کیا ،اس کا لب لباب یہ تھا کہ سٹیبلشمنٹ کی قوتیں موجودہ حکومت کی حمایت چھوڑ دیں اور عوام کے راستے میں دیوار نہ بنیں ،یہ باتیں ایک لحاظ سے اس لئے خطرناک ہیں کہ اب کھل کر حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنایا جارہا ہے، لاہور کے جلسہ میں جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں اسلام آباد کی طرف جس لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، وہ ایک بڑا سیاسی فیصلہ ہوسکتا ہے، جس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، جس وقت لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہورہا تھا، عین اس وقت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ملتان میں جلسے کی ناکامی کا اعلان کر رہے تھے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کی عوام نے پی ڈی ایم کو مسترد کر دیا ہے، حیران کن امر یہ ہے کہ ابھی جلسہ شروع نہیں ہوا تھا کہ حکومتی وزرا ءاور ترجمان، حتی کہ وزیر اعلی پنجاب بھی اس کی ناکامی کا اعلان کرتے رہے، شاید اس وجہ سے مریم نواز نے بھرے جلسہ میں کہا کہ ٹی وی چینلوں کو یہ ہدایت جاری کی جا رہی ہے کہ وہ جلسے میں کم شرکاء کی خبر کو نمایاں کریں، سوال یہ ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے حکومت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟یا وہ قوتیں جو اپوزیشن کو دبا کر رکھنا چاہتی ہیں۔ 

ان حربوں سے کیا حاصل کر پائیں گی ؟ جبکہ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ پی ڈی ایم نے چاروں دارالحکومتوں اور ملتان میں بڑے کامیاب جلسے کئے ، ہر جلسہ سے پہلے حکومت کا بیانیہ یہی رہا کہ جلسہ ناکام ہو گیا ہے جبکہ وہ بیانیہ عام آدمی تک پہنچتا رہا ،جو پی ڈی ایم پہنچاناچاہتی ہے۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی اگرچہ پی ڈی ایم کے جلسے کو ناکام قرار دیتے رہے ،مگر وہ یہ بھول گئے کہ جب تحریک چلتی ہے تو جلسوں کا حجم اتنی اہمیت نہیں رکھتا ،جتنی اہمیت اس بات کی ہوتی ہے ہے کہ تحریک میں تسلسل کتنا ہے،حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم تحریک میں ایک نمایاں تسلسل موجود ہے اور وہ بڑی تیزی سے حکومت کے خلاف ایک فضا بنانے میں کامیاب رہی ہے۔

ایک اور بات جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، وہ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں پیدا ہونے والی گہری ہم آہنگی ہے ، ملتان کے بعد لاہور میں بھی یہ دیکھا گیا کہ پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن ، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنی اپنی جماعت کے حوالے سے نعرے بھی لگوائے اور تقریریں بھی کیں ،لیکن بنیادی طور پر وہ اکٹھے تھے اور ان کا بیانیہ بھی ایک تھا ،ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ادھر جب سے پی ڈی ایم نے اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا ہے ،حکومت بظاہر تو یہ کہہ رہی ہے کہ استعفے دیں ، ہم انہیں منظور کرکے ضمنی انتخابات کرا دیں گے، مگرزمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومتی شخصیات استعفوں کے اس سلسلہ کو روکنے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں۔

وزیراعلی پنجاب کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی سے رابطے کئے ہیں اور انہیں استعفیٰ نہ دینے کے بدلے میں فنڈز کی اور مراعات دینے کی بھی پیشکش کی ہیں ، باقی شہروں سے تعلق رکھنے والے والے ارکان سے بھی ذرائع کے مطابق رابطے کیے جارہے ہیں ، گویا 31دسمبر تک اپنی قیادت کے پاس استعفیٰ جمع کرانے کی جو ڈیڈ لائن دی گئی ہے، شاید اس تک پہنچتے پہنچتے بہت سے ارکان اسمبلی پی ڈی ایم سے الگ ہو جائیں،تاہم یہ اتناآسان بھی نہیں ہے ،کیونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے اراکین کو یہ وارننگ دے رکھی ہے کہ اگر انہوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو انہیں عوامی گھیراؤکا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ (ق ) بھی اس ساری صورتحال میں اپنے لئے جگہ بنانے میں کوشاں ہے۔

خاص طور پر ملتان میں وہ ایک ایسی موثر قیادت ڈھونڈناچاہتی ہے، جو اس خلا کو پورا کرسکے، جو اس وقت مسلم لیگ ق کے یہاں نہ ہونے سے موجود ہے ، پچھلے دنوں سابق صوبائی وزیر رائےمنصب علی خان نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان کر دیا ، دوسری طرف تحریک انصاف کے سابق سٹی صدرور سرگرم رہنما ڈاکٹر خالد خاکوانی نے جو مبینہ طورپر شاہ محمود قریشی کے امتیازی فیصلوں کی وجہ سے عام انتخابات میں ٹکٹ حاصل نہ کرسکے تھے اور انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار کی حیثت سے حصہ لیاتھا ،نے بھی مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرلی ہے ،ڈاکٹر خالد خاکوانی ،سابق مئیرملتان ٖغلام قاسم خان خاکوانی کے صاحب زادے ہیں اور ان کی سیاسی ساکھ بہت بہتر اور کسی بھی الزام سے مبرا ہے ،ان دوشخصیات کی وجہ سے مسلم لیگ ق کو ملتان شہر میں ایک بنیاد میسر آئی ہے جو آگے چل کر مذید لوگوں کو اکھٹا کرسکتی ہے ،اکھاڑ پچھاڑ کے اس سیاسی دور میں تحریک انصاف کے مقامی ارکان اسمبلی اور عہدے دار اس لیے بددلی کا شکار ہیں کہ گروپ بندی نے شہر میں تحریک انصاف کو عملی طورپر معطل صورتحال کا شکار کر رکھا ہے۔ 

اس میں کوئی اجتماعی صورتحال پیدا نہیں ہو پا رہی،خاص طورپر ایک گروپ کو نوازنے کی وجہ سے تحریک انصاف عملاً ایک سیاسی جماعت بن کر رہ گئی ہے ، جو عوام کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی،گزشتہ دنوں شاہ محمود قریشی کو صوبائی نشست پر شکست دینے والے سلمان نعیم نے جہانگیر ترین سے ملاقات کی اور ذرائع کے مطابق ان سے اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالات کئے، جس پر جہانگیر ترین نے انہیں مشورہ دیا کہ فی الحال وہ انتظار کریں اور آنے والے چند ہفتوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں آ سکتی ہیں جو ہمارے لئے سود مند ثابت ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین