مذاکرات کا وقت گزر گیا ہے۔ اب حکومت کو جانا ہوگا۔ یہ اعلان اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے رہنماؤں مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اِس اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی سخت رویہ اختیار کر لیا ہے اور یہ کہہ کر اُنہوں نے بھی مذاکرات کا دروازہ بند کر دیا ہے کہ اپوزیشن صرف این آر او کے لئے مذاکرات کرنا چاہتی ہے اور اُنہوں نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت بھی نہیں دی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اِس غیرلچکدار رویے کے بعد اب صرف سیاسی تصادم کا راستہ رہ گیا ہے۔ اِس میں جیت کس کا مقدر بنتی ہے اور ہار کس کے نصیب میں آتی ہے؟ فریقین کے ساتھ ساتھ عوام بھی اندازوں اور قیاس آرائیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ اِس پر سب پریشان ہیں۔ ملک میں غیریقینی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکا جائے۔ مگر کیسے؟ اِس کا کسی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ اندازہ کسی حد تک درست ہے کہ اپوزیشن انتخابات کے لئے یہ سب کچھ کر رہی ہے لیکن اُنہیں شاید یہ اندازہ نہیں ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ایک ماہ قبل کرانے سے اپوزیشن کی تحریک ختم نہیں ہوگی کیونکہ جس مقصد کے تحت پی ڈی ایم کی تشکیل ہوئی ہے، وہ اگر پورا نہ ہوا اور پسپائی اختیار کی گئی تو اِس سے خود پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کو ایسا نقصان ہو گا، جسے بہت دیر تک وہ پورا نہیں کر سکیں گی۔ پی ڈی ایم کے سیاسی ایجنڈے کے دو بنیادی نکات ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم اور ملک میں وفاقی پارلیمان جمہوری نظام کی حفاظت کی جائے اور سیاست میں غیرسیاسی قوتوں کی مداخلت ختم کی جائے۔ پی ڈی ایم کے رہنما اپنی تحریک کو صرف سینیٹ کے انتخابات تک محدود نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے اگر ایسا کیا تو وہ سیاست کرنے کا جواز کھو بیٹھیں گے۔ البتہ اُن کا ہدف یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے قبل وہ اپنے ایجنڈے میں کامیابی حاصل کریں کیونکہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے بیانات سے بین السطور اِس خدشے کا اظہار ہوتا ہے کہ سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہونے سے 18ویں آئینی ترمیم اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے لئے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں اکثریت ملنے کے بعد پی ٹی آئی ہر طرح کی قانون سازی کی پوزیشن میں ہو گی۔ پی ڈی ایم کے رہنما یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بقول اُن کے جو لوگ پی ٹی آئی کو حکومت میں لائے ہیں، وہ 18ویں ترمیم کے خاتمے اور ملک میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی بجائے کوئی صدارتی یا پارلیمانی نظام لانے کے لئے پی ٹی آئی سے قانون سازی کرائیں گے۔ اِس صورتحال میں پی ڈی ایم کی یقیناً یہ کوشش ہوگی کہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ پی ٹی آئی کو سینیٹ میں اکثریت نہ مل سکے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات ایک ماہ قبل کرانے کے اعلان سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ اُن کی حکومت اپوزیشن کی تحریک کی وجہ سے کسی دباؤ میں ہے۔ وہ بےشک کہتے رہیں کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دباؤ ہے۔ ورنہ سینیٹ کے انتخابات مارچ کی بجائے فروری میں کرانے کا وہ اعلان نہ کرتے۔ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات جب بھی ہوں، پی ٹی آئی کی سینیٹ میں اکثریت کو روکنا مشکل ہوگا۔ پھر 18ویں ترمیم اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے تحفظ کے لئے پی ڈی ایم کا اگلا ہدف قومی اسمبلی ہو گا۔ پی ڈی ایم یا تو کسی طریقے سے قومی اسمبلی میں اس وقت کے نمبر گیم کو بدلنے پر کام کرے گی یا وہ ایسا نہ کر سکی تو استعفوں کا آپشن استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرائے گی اور نئے انتخابات کی طرف جائے گی۔ کیونکہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں اس طرف چلی گئی ہیں، جہاں سے واپسی اُن کے لئے سیاسی طور پر بہت نقصان دہ ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اُس کے لئے سندھ حکومت قربان کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تصادم کی اِس فضا میں پاکستان جیسے ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔ پاکستان سیاسی طور پر جہاں کھڑا ہے، یہاں تک لانے میں بھی ایک منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اِن حالات سے کیسے بچا جائے، جن کا خوف ہے؟ اِس سوال کا جواب صرف مذاکرات ہیں۔ فرض کریں کہ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی میز پر آجاتے ہیں تو کیا وزیراعظم عمران خان یہ یقین دہانی کرا سکیں گے کہ 18ویں آئینی ترمیم اور وفاقی پارلیمانی نظام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی اور کیا اپوزیشن وزیراعظم عمران کی یقین دہانی پر مطمئن ہو سکے گی؟ حکومتی نقطہ نظر سے مذاکرات کو دیکھا جائے تو کیا وزیراعظم کے بقول جو این آر او اپوزیشن مانگ رہی ہے، وہ وزیراعظم عمران خان دے سکیں گے اور کیا اپوزیشن مطمئن ہو جائے گی کہ معاملات حل ہو گئے؟ یہ تمام سوالات اپنی جگہ مزید بے یقینی اور تصادم کو جنم دیں گے۔ مذاکرات اگر ہوں بھی تو بےمعنی ہوں گے۔ دونوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ سیاسی تصادم کو اس سطح تک نہ جانیں دیں، جس سطح تک لے جانے کیلئے یہ ماحول بنایا گیا ہے۔ غیرلچکدار رویے ختم کرکے معاملات کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔ یہ سسٹم نہ رہا یا اس سسٹم کے ہوتے ہوئے 18ویں ترمیم اور وفاقی پارلیمانی نظام پر کوئی سمجھوتہ ہوا تو خطرناک نتائج کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔