وفاقی کابینہ کی طرف سے منظور کردہ مردم و خانہ شماری 2017کے نتائج کو نہ صرف سندھ کابینہ نے مسترد کر دیا ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے بھی اُن نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ موجودہ سیاسی غیریقینی کی صورتحال میں یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ 19سال بعد ہونے والی مردم و خانہ شماری 2017کے نتائج بھی متنازع ہو گئے ہیں۔ ویسے تو پی ٹی آئی کی حکومت اہم قومی مسائل پر اتفاقِ رائے سے فیصلے کی کوئی روایت قائم نہیں کر سکی ہے اور نہ ہی اِس حوالے سے اُس کی سیاسی سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ مردم شماری کا متنازع ہونا ملک کے لئے بدقسمتی ہے۔ مردم و خانہ شماری 2017کے نتائج پر سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مختلف سیاسی جماعتوں اور حلقوں کی طرف سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ نتائج کی باقاعدہ منظوری سے پہلے اُن تحفظات کو دور کرتی اور اتفاقِ رائے سے نتائج کی منظوری دیتی لیکن اتفاقِ رائے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ نتائج کے بارے میں تحفظات دور کرنے کے لئے وہ معاہدہ مددگار ہو سکتا تھا، جو سینیٹ میں پارلیمانی لیڈرز کے مابین ہوا تھا۔ اُس معاہدے پر پی ٹی آئی کی طرف سے سینیٹر اعظم سواتی نے بھی دستخط کئے تھے۔ نتائج کو درست کرنے کے لئے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ منتخب کردہ 5فیصد پاپولیشن بلاکس میں دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی۔ اگر یہ کام کر لیا جاتا تو یہ اہم قومی معاملہ متنازع نہ بنتا۔ اِس معاہدے کی وجہ سے آئین کی 24ویں ترمیم کی راہ ہموار ہوئی، جس کے تحت مردم شماری 2017کے نتائج کی بنیاد پر 2017میں یا اُس دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں کی جا سکتی ہیں لیکن معاہدے کی رو سے اُن نتائج کو کسی بھی آئندہ کے عام انتخابات میں نئی حلقہ بندیوں یا صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا تاوقتیکہ اُن نتائج کو درست نہ کر لیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مردم و خانہ شماری 2017کے نتائج پر جو اعتراضات کئے ہیں، اُن میں وزن ہے اور اُن کو تسلیم کرتے ہوئے سینیٹ کے پارلیمانی لیڈرز کا معاہدہ ہوا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِن اعتراضات کو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی درست قرار دیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے اِن نتائج کی منظوری دے کر مذکورہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ آئین کے تحت اِن نتائج کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل کو دینی چاہئے۔
سندھ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا موقف یہ ہے کہ مردم شماری میں ایک منصوبہ بندی کے تحت سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ اُس کے لئے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مردم شماری میں ایک صوبے میں اِس وقت رہنے والے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو شمار نہیں کیا گیا کیونکہ اُن کے شناختی کارڈز پر پتے اُن کے اپنے آبائی علاقوں کے درج ہیں۔ سندھ میں دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے لوگوں کی تعداد ہزاروں نہیں، کروڑوں میں ہے۔ سندھ اُن لوگوں پر اپنے وسائل خرچ کرتا ہے۔ اُنہیں بھی سندھ کی آبادی میں شمار ہونا چاہئے جیسا کہ اسلام آباد کی آبادی کو شمار کیا گیا ہے، جہاں 90فیصد لوگ اسلام آباد کے رہائشی نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے ایک اور مدلل بات کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف کی نگرانی میں ہر چار سال بعد ’’ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے‘‘ (ایم آئی سی ایس) ہوتا ہے اور یہ پورے پاکستان میں ہوتا ہے۔ اِس سروے کے مطابق سندھ میں ہر گھرانہ اوسطاً 7.2افراد پر مشتمل ہے۔ مردم و خانہ شماری 2017 کے نتائج کے مطابق سندھ میں 85لاکھ، 85ہزار 610گھرانے ہیں۔ اگر اُنہیں 7.2سے ضرب دی جائے تو سندھ کی آبادی 6کروڑ 18لاکھ 392افراد پر مشتمل ہونی چاہئے لیکن مردم و خانہ شماری 2017میں اِسے 4کروڑ 78لاکھ 86ہزار 51ظاہر کیا گیا ہے۔ اِس طرح سندھ کی آبادی ایک کروڑ 39لاکھ 30ہزار 341یعنی 22.5فیصد کم ظاہر کی گئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’ایم آئی سی ایس‘‘ ہماری مردم شماری سے زیادہ قابلِ اعتماد اور اُس کا متبادل ہے۔ آبادی اور گھرانوں کے شمار کے لئے نادرا کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ دیگر کئی سائنسی ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس معاملے پر اتفاقِ رائے کے امکانات سے شعوری طور پر فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف مردم و خانہ شماری 2017کو متنازع بنا دیا ہے، جن کی بنیاد پر پاکستان کی آئندہ کی منصوبہ بندی اور عالمی اداروں کی معاونت کا انحصار ہے بلکہ اِس حکومت نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلوں کے معاملے کو بھی متنازع بنا دیا ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے طلباء اِس داخلہ پالیسی پر سراپا احتجاج ہیں۔ اِس طرح کے اقدامات سے پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں چھوٹے صوبوں میں اِن خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ حکومت مقتدر حلقوں کے کہنے پر 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کر سکتی ہے اور یہ حکومت اُن حلقوں کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، جو پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات اور حقیقی مردم و خانہ شماری کو ملک کے لئے خطرناک تصور کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو چاہئے کہ وہ مردم شماری کے نتائج اور میڈیکل کالجز میں داخلہ پالیسی پر تحفظات کو دور کرنے کے لئے فوری اقدامات کرے۔