غالب نے کہا تھا ؎ دیکھیے پاتے ہیں عُشّاق کیا بُتوں سے فیض… اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ غالب کی خُوش امیدی اپنی جگہ، مگر قتیل شفائی اور احمد فراز نے اپنے اپنے تجربات کے بعد پھر اُسی برہمن کے کچھ یوں لتّے لیے ؎ جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے…اُس کو دفنائو مِرے ہاتھ کی ریکھائوں میں۔ اور ؎ نہ شب و روز ہی بدلے ہیں، نہ حال اچھا ہے…کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے۔ اور کوئی ہم سے جو سال 2019ء سے متعلق پوچھے، تو ہم تو اُس برہمن کو سرعام کوڑے لگانے کی سزا ہی دے ڈالیں۔ اُف…کوئی تبدیلی سی تبدیلی آئی ہے۔ عوام النّاس تو کیا، خواص کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ ایک معروف کالمسٹ نے تو دو جملوں میں پوری حکومتی کارکردگی کا پول کھول کے رکھ دیا کہ ’’یہ حکومت انتظامی حماقتوں کا ایک شان دار گل دستہ ہے۔
یہ اتنے بابرکت لوگ ہیں کہ جس ایشو کو ہاتھ لگاتے ہیں، وہ بحران بن جاتا ہے۔‘‘ مانا کہ حفیظ جالندھری تو برسوں پہلے ہی کہہ گئے تھے ؎ جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی بات نہیں…اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی بات نہیں…تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ سیل میں ہے…آقا، اب یہ بندے ہی کے خارو خس کی بات نہیں…نوش ہے عنواں، نیش نتیجہ، اِن شیریں افسانوں کا…تذکرہ ہے انسانوں کا، یہ مورومگس کی بات نہیں…کارِمُغاں، یہ قند کا شربت بیچنے والے کیا جانیں…تلخی و مستی بھی ہے غزل میں، خالی رَس کی بات نہیں…تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصّہ ہے…نصف صدی کا قصّہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔‘‘ تو مُلک و قوم کا یہ بگاڑ بھی کوئی دوچار سالوں کی تو بات نہیں۔
اس ’’کارِبد‘‘ میں خیر سے کئی نسلوں، کئی آمروں، کئی سیاست دانوں اور خود عوام النّاس کی بھی بھرپور حصّہ داری ہے۔ بڑی ’’جدوجہد، کاوشوں‘‘ کے بعد مُلکِ عزیز کو اس حال تک پہنچایا گیا ہے، وگرنہ یہ مملکتِ خداداد اتنی آسانی سے تو اس بدحالی تک پہنچنے والی نہ تھی کہ ؎ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صُورت کو بگاڑ.....اور حال یہ ہے کہ سنوار، تبدیلی، نئے پاکستان کے نام پر بھی بس ایک کھیل تماشا، سرکس ہی لگا ہوا ہے۔ (کہ’’یہ تو ہوگا‘‘) گزشتہ سال، ڈیڑھ سال کا خلاصہ علاوہ بیانات، الزامات، برطرفیاں، تعینّاتیاں، آنیاں، جانیاں، (گرفتاریاں، ضمانتیں)، منہگائی، ہڑتالیں اور یُوٹرنز کے کیا ہے۔ حرام ہے، انتخابات سے قبل کا کوئی ایک وعدہ، دعویٰ تکمیل کو پہنچا ہو۔
سال کے آغاز میں پیش آنے والے الم ناک سانحے، سانحۂ ساہیوال کے فیصلے سے لے کر کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت تک، خواتین کے بے ہودہ عورت آزادی مارچ سے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ تک، بار بار زبان پھسلنے سے مختلف ویڈیوز اسکینڈلز تک، صندل خٹک، حریم شاہ کی کارستانیوں سے متنازع ستارۂ امتیاز تک اور ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ سے رانا ثناء اللہ کی ضمانت تک کون سا معاملہ ایسا ہے، جس میں رسوائی و جگ ہنسائی مقدر نہ بنی ہو۔ سال بھرمیں سوائے چند ایک مواقع کے، کہ جب پاک فوج کی طرف سے دشمن کے دو طیارے مار گرا کے اُسے شان دار ’’سرپرائز‘‘ دیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پُرجوش خطاب کر کے عوام کا لہو گرمایا۔ کرتارپور راہ داری کا افتتاح ہوا، برطانوی شہزادہ، شہزادی نے پاکستان کا دورہ کیا۔
مُلک میں پی ایس ایل کا انعقاد، ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی ہوئی اور ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ گھر آئی، عمومی طور پر نالش و دُہائی، نالہ و فریاد ہی کی گونج گونجتی، ہاہاکار، آہ و بکا ہی مَچی رہی۔ ہر پارٹی کا ووٹر، بشمول حکومتی پارٹی ہوش رُبا منہگائی، ٹیکسز کی بھرمار اور اشیائے ضروریہ کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کے سبب ہاتھ اُٹھا اُٹھا کے بددعائیں دیتا ہی نظر آیا۔ عوامی مفاد میں کوئی نئی قانون سازی تو دُور کی بات، پرانے قوانین پر عمل درآمد کے ضمن میں بھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں دیکھی گئی۔
سابقہ قبائلی اضلاع (فاٹا) کے انتخابات سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد تک وہی جوڑ توڑ، وہی ہارس ٹریڈنگ، لوٹا کریسی، تختی لگے منصوبوں کا دوبارہ افتتاح، جھوٹے سچّے بیانات، تقریریں، پریس کانفرنسز۔ ٹرین حادثے سے لے کر ٹماٹر کی آسمان کو چُھوتی قیمتوں تک کے معاملے میں اگر کوئی امرِ مشترک نظر آیا، تو وہ انتہائی قابل، لائق، زیرک و دانش وَر وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج کا ایک سے بڑھ کر ایک لطیفہ تھا۔
جس نے ’’جب زیادہ بارش آتا ہے، تو زیادہ پانی آتا ہے۔‘‘ کو تو کہیں بہت ہی پیچھے چھوڑ دیا۔ ’’جان اللہ کو دینی ہے‘‘ ، سچ تو یہ ہے کہ سال تمام ہوا، مگر ہم اپنی پوری عقل، لڑا کے بھی ابھی تک انڈوں، مرغیوں، کٹّوں کی فروخت اور گائے کے دودھ سے آنے والے انقلاب کا فارمولا سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی 17روپے کلو ٹماٹر، 5روپے کلو مٹر،ڈالر اوپر جانے سے بی آر ٹی منصوبے میں ہونے والے فائدے اور ویڈیو، فوٹیج کے فرق کی گُتھی سلجھا پائے ہیں۔ اور رہی سہی کسر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (PIC)میں پیش آنے والے سانحے نے پوری کردی کہ اس ایک المیے نے تو پوری مُلکی تاریخ کے منہ پر کالک ہی تھوپ کے رکھ دی ۔ وہ کیا ہے ناں ؎ مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہوسکتی.....درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے۔
پھر عالمی منظر نامے سے بھی سال 2019ء کے کشکول میں فلسطین، کشمیر، شام، برما کے مسلمانوں اور یغورز پر ڈھائےجانے والے اندوہ ناک مظالم سے نیوزی لینڈ میں نمازیوں پر ہونے والی فائرنگ کے واقعے، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، سمجھوتا ایکسپریس کے ملزمان کی بریّت، بابری مسجد کیس کے فیصلے، بھارتی شہریت کے متنازع قانون اور ناروے میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے تک کون سی اچھی خبروں کے سکّے کھنکے۔ سالِ رفتہ کی جھولی ایک کےبعد ایک صدمات، سانحات کے بوجھ ہی سے لَدی جاتی رہی۔
مسلمان ممالک کو ’’مسلم اُمّہ‘‘ بننا نصیب ہوا، نہ غیر مسلم اقوام نے ہمارے ماتھے پہ سجا مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل اُترنے دیا۔ ہاں، اگر کچھ سکینت ملی، تالیفِ قلب ہوئی تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم، جسینڈا آرڈرن کے طرزِ عمل، کینیڈین وزیراعظم، جسٹن ٹروڈو کے انسان دوست روّیوں سے، وگرنہ عومی طور پر تو دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات ہی عام رہیں۔ خواتین کےحجاب، نقاب بھی نوچےگئے،تو دانستہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھی مجروح کیےجاتے رہے۔
مگر وہ جو خمار بارہ بنکوی نے کہا تھا کہ ؎ دوسروں پہ اگر تبصرہ کیجیے.....سامنے آئینہ، رکھ لیا کیجیے، تو ہمارے اس حال تک پہنچنے میں خود ہمارا اپنا بھی بہت ہاتھ ہے۔ جب تک مسلمان ممالک نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر یک دل، یک جان، یک زبان نہیں ہوں گے، دنیا ہمیں ایسے ہی کُچلتی، مسلتی رہےگی۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مظلوم کشمیریوں کے لیے ایک قرارداد تک منظور نہیں کرواسکتے، اُلٹا اُن کو خون میں نہلانےوالے ہاتھ تھامتے، اُن کے قاتلوں، خُونیوں کو مہمانِ خصوصی کا درجہ دیتے ہیں۔ بہرکیف، قصّہ مختصر ؎ کچھ خوشیاں، کچھ آنسو دے کر ٹال گیا.....جیون کا اِک اور سنہرا سال گیا۔
اور ؎ پُرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سِمٹیں…نئے دن کا نیا سورج افق پر اُٹھتا آتا ہے۔؎ چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں.....دیوار سے پُرانا کیلنڈر اُتار دے۔ کم از کم ایک مسلمان کی شان تو یہی ہے کہ وہ کبھی نا امید، مایوس نہیں ہوتا، مُلکِ عزیز جس مقام تک بھی آن پہنچا ہے، ’’گھر تو آخر اپنا ہے‘‘ اور موج بڑھے یا آندھی آئے، اپنے گھر کا دِیا تو خود ہی جلائے رکھنا ہوتا ہے، خواہ اُس کے گرد دونوں ہاتھوں کا ہالہ کیے رکھیں یا چراغ سے چراغ جلاتے جائیں۔
اگر ہر ایک صرف اپنے آپ ہی کو درست کرلے، اپنے ارد گرد کی جگہ صاف کرنا شروع کردے، تو کچھ زیادہ عرصہ نہیں لگے گا ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ کی شناخت بننے، عزت و وقار بڑھنے میں، بس ضرورت صرف ٹھان لینے کی ہے۔ اور اس کے لیے تبدیلی، تبدیلی کی ڈفلی، باجا بجانے، راگ الاپنے کی بھی ضرورت نہیں، قائدِ اعظم اور اقبال کا پاکستان اپنی اصل شناخت، زرّیں اصولوں ایمان، اتحاد، تنظیم اور یقیں محکم، عملِ پیہم، محبت فاتحِ عالم کے تحت ہی دنیائے رنگ و بُو میں سُرخ رُو ہو سکتا ہے۔
مگر…سالِ نو کےموقعے پر کچھ نئے عہد باندھنے سے پہلے بہت ضروری ہے کہ اِک طائرانہ نظر سالِ رفتہ پر بھی لازماً ڈال لی جائے تاکہ اپنی لغزشوں، کوتاہیوں، خامیوں، غلطیوں کا بھی کچھ محاسبہ ہوسکے اور سال2019 ء اور 2020 ء میں محض انیس بیس ہی کا فرق نہ ہو، تو اس کے لیے حاضرِ خدمت ہے، ہمارے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کی صُورت، لگ بھگ ہر شعبۂ ہائے زندگی کا مختصر احوال۔ کوشش تو ہم نے اس برس بھی بھرپور کی ہے کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود خاصے کم صفحات میں بھی، جس قدر ممکن ہو، بہتر سے بہتر تجزیئے، تبصرے آپ کی نذر کریں۔ تو لیجیے، ایک بِیتا کل اس چھوٹی سی دستاویز کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ رہ جانے والی تجزیاتی رپورٹس، صفحات اِن شاء اللہ اگلے ایڈیشنز میں شامل ہوتے رہیں گے۔ ہر برس کی طرح امِسال بھی آپ سے وہی درخواست ہے کہ ہم نے تو اپنے تئیں اپنا ’’بہترین‘‘ ہی پیش کرنے کی سعی کی، لیکن پھر بھی اگر دورانِ مطالعہ ہماری کوئی نادانستہ غلطی، خامی، کوتاہی آپ کی نظر سے گزرے، تو نشان دہی ضرور کیجیے گا۔
اگر کچھ سیکھیں، حاصل کریں، پائیں، خوش ہوں، تو داد کے ساتھ ’’جہاد بالقلم‘‘ کے رستے پر گام زَن اس ادارے ’’جنگ گروپ‘‘ کی بقا و سلامتی اور فلاح و ترقی کے لیے ہاتھ بھی ضرور اٹھائیے گا کہ ’’ادارے سلامت رہنے چاہئیں، لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘ ہاں، ایک بات یاد رہے، ہمارے ان صفحات میں پیش کردہ تمام ترحالات و واقعات، اعدادوشمار 26دسمبر 2019ء تک (شمارہ پریس جانے تک) کے ہیں۔ ہماری طرف سے سالِ نو کی مبارک باد دل کی اتھاہ گہرائیوں اور اس دُعا کے ساتھ قبول کیجیے ؎
مدِنظر نہیں ہے فقط مہرباں کی خیر
شامل مِری دُعا میں دلِ دشمناں کی خیر
جوشِ جنوں میں پیشِ نظر مصلحت بھی تھی
سجدے کیے ہیں، مانگ کے اس آستاں کی خیر
یخ بار سرد مہرئ انساں سے کائنات
اس ارضِ زمہریر میں قلبِ تپاں کی خیر
انساں کا ہاتھ اُن کی طرف بھی دراز ہے
پاکیزگی حُسنِ مہ و کہکشاں کی خیر
یہ شاخِ سربرہنہ، یہ جھکّڑ، یہ رقصِ برق
منظور خیر، خیر، مِرے آشیاں کی خیر
نرجس ملک
ایڈیٹر،
جنگ، ’’سن ڈے میگزین‘‘