• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمانے کے انداز وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ لہٰذا ہم بھی عمر گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور کبھی خوشی سے اور کبھی بادل ناخواستہ اسے قبول بھی کر رہے ہیں ۔ اس میں ہمارا رہن سہن ، ہماری خوراک ، ہمارے لباس، رسم و رواج اور معاشرتی نظام میں تبدیلیاں سبھی کچھ شامل ہے ۔ جیسا کہ پہلے لوگ شادیوں کے لئے عید بقر عید کا انتظار کرتے تھے لیکن اب پچھلے کچھ سالوں سے دسمبر اور جنوری میں شادی کرنے کا رواج عام ہوگیاہے ،جس کی وجہ ایک تو شاید موسم ہے، کیوں کہ پاکستان میں پڑنے والی شدید گرمی اور اوپر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں شادی کی تقریب سب ہی کو گراں گزرتی تھی دوسرے بیرون ملک رہنے والے لوگ زیادہ تر دسمبر میں پاکستان آنا پسند کرتے ہیں اس کی وجہ ایک تو موسم کا اچھا ہونا ہے اور دوسرا کرسمس اور نئے سال کی چھٹیاں ہیں۔ 

چوں کہ ہر خاندان کے کچھ لوگ ضرور بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں اس لئے بھی لوگوں نے دسمبر اور جنوری میں شادیاں کرنا شروع کیں ۔خصوصاً کراچی میں جہاں سردی برائے نام پڑتی ہے اس لیے دسمبر اور جنوری کے مہینے شادیوں کے مہینے کہلایےجانے لگے ۔ 

اسی لئے کراچی میں اگر سردیوں میں شادی کرنی ہو تو تقریباً سال بھر پہلے ہال بک کروانا پڑتا ہے ورنہ مشکل ہوجاتی ہے۔ اس سال کرونا کی وباء نے کچھ ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی اب جس کی شادی طے ہو چکی تھی انہیں تو کرنا ہی ہے، کیوںکہ اس بیماری کا کچھ پتہ نہیں کہ یہ کب تک دنیا کو ستاتی رہے گی اگر ایک دو ماہ کی بات ہوتی تو شاید لوگ باگ تاریخیں آگے کر دیتے لیکن اب تو معلوم ہوگیا کہ ویکسین کے آنے تک یہ وباء کبھی کم اور کبھی شدت سے حملے کرتی ہی رہے گی۔

اس لیے اب ڈرے سہمے شادیاں ہورہی ہیں اور لوگ منہ چھپائے ان میں شرکت بھی کر رہے ہیں خصوصاً قریبی رشتے دار وں کو تو شریک ہونا ہی پڑتا ہے۔کرونا نے جہاں دنیا کو ایک خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے وہیں آج کل کی شادیوں میں شرکت کرکے نئے نئے رسم ورواج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور اس خوفزدہ فضا میں چہرے پر مسکراہٹ لانے کا باعث بھی ہیں۔ 

مثلاً پہلے سمدھیانے والوں کا استقبال ہار پھول تھام کر کیا جاتا تھا لیکن اب داخلی دروازے پر میزبان " سینی ٹائیزر " لئے کھڑے ہوتے ہیں اور مہمان ہاتھ صاف کرکے پنڈال میں داخل ہورہے ہوتے ہیں جہاں ہال کے دروازے پر ہی میز پر ماسک بھی رکھے ہوتے ہیں کہ جو لگا کر آنا بھول جائےوہ ماسک لگا لے ۔ وباء سے پہلے بارات کا استقبال سر پر پتیاں نچھاور کرکے کیا جاتا تھا اب ماتھے پر تھرمامیٹر لگا کر ٹمپریچر چیک کیا جارہا ہوتا ہے۔ خواتین کے دکھ کا تو کہنا ہی کیا ،کیوں کہ ماسک کے بغیر ہال میں داخلہ ممنوع ہے اسی لیے خواتین کو بڑی مشکل ہورہی ہے جب ماسک ہی لگانا ہے تو گوری سنگھار کیسے کرے ؟ اور اگر کر بھی لے تو دکھائےکیسے ،کہ اب تو پہچاننا مشکل ہے کہ سامنے نسرین کھڑی ہے کہ پروین ؟؟

لپ اسٹک جو پہلے کھانے کی نذر ہوتی تھی اب ماسک کی نذر ہوجاتی ہے اسی مشکل کے پیش نظر بیوٹی پارلرز کا بزنس ٹھپ ہورہا ہے دلہنیں تو بے شک پارلرز سے ہی تیار ہورہی ہیں اور نجانے کیوں عام خیال یہ ہے کہ دلہن کو کرونا نہیں ہوسکتا ! ہم نے تو اب تک جتنی شادیوں میں شرکت کی کسی دلہن کو ماسک لگائے نہیں دیکھا دولہا کہیں کہیں پھر بھی ماسک میں نظر آگئے۔ رشتے دار خواتین خود ہی لیپا پوتی کرلیتی ہیں کہ ماسک لگانا ہے تو کون میک اپ پر پیسے خرچ کرے ۔ سب سے زیادہ مشکل تصویریں کھنچوانے کےوقت پیش آتی ہے جب سب ماسک ہٹا ہٹا کر فوٹو کھنچوارہے ہوتے ہیں اور فوٹو گرافر بھی اب پوز بنوانے سے زیادہ " ماسک چھپائیے " کہہ رہے ہوتے ہیں جب انشاء اللہ یہ وباء ٹل جائے گی تو یہ تصویریں ساری زندگی کے لئے یادگار ہوں گی کہ کیسے مشکل دن آئے تھے۔ 

شادی ایک ایسا ایونٹ ہوتا تھا کہ جس میں بہت سے ایسے عزیزوں سے ملاقات ہوجاتی تھی جن سے ملے ہوئے ایک عرصہ ہوچکا ہوتا تھا لیکن اب کم از کم مہمان بلا کر شادی کی تقریب ہورہی ہے اور اس میں بھی لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے کتراتے ہیں جو صحیح بھی ہے ،کیوں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اور اس بیماری سے صرف احتیاط کرکے ہی بچا جاسکتا ہے، البتہ کچھ لوگ اب بھی ایسے پائے جاتے ہیں جو اب بھی زیادہ احتیاط نہیں کر رہے شادی میں لوگ ان سے چھپ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سامنا ہوتے ہی گلے نہ لگالیں۔ 

شادیوں کے رنگ رنگ کے کھانے بھی اب خواب و خیال ہونے والے ہیں، کیوں کہ سنا ہے کہ نئے احتیاطی اقدام کے تحت کھانا اب باکس میں پیش کیا جائےگا۔ یعنی سب کو ایک ایک لنچ باکس دے دیا جائے گا اوراللہ اللہ خیر صلا۔سب سے اہم بات یہ کہ شادی کی تقریب صرف دو گھنٹے میں ختم کرنی ہوگی وہ زمانے بیت گئے جب رات کےایک بجے کھانا پیش کیا جا تا تھا اور دو تین بجے رخصتی ہوتی تھی ۔ 

ایک سال پہلے جس وقت بارات بھی نہیں آتی تھی اس سے بھی پہلے اب شادی کی تقریب اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کہیں اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہمارے گناہوں کی سزا تو نہیں دے رہا ؟ نکاح جیسے مقدس فریضے کو ہم نے اسراف۔ نمائش اور دکھاوے کا ایسا تہوار بنا لیا تھا کہ جس میں لاکھوں روپیہ بنا سوچے سمجھے اڑا دیا جاتا تھا ۔ کبھی" لوگ کیا کہیں گے" کہہ کر دکھاوا ہوتا تو کبھی " ہمارے ارمان "کہہ کر بے دریغ پیسہ لٹایا جاتا تھا۔ ہزاروں مہمان اور قسم قسم کے کھانے عام بات ہوگئی تھی اور صرف شادی اور ولیمہ ہی نہیں اس سے پہلے بھی ڈھولکیاں ، برائیڈل شاور ، مایوں ، مہندی ، شہندی قسم کی فضولیات اس کے علاوہ ہوتی تھیں ۔ 

اس سے پہلے بھی بہت سی حکومتوں نے شادی کے کھانے اور جہیز پر پابندی لگانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے کچھ سبق نہیں سیکھا چھپ چھپ کر سب کیا اب اللہ تعالیٰ نے سبق سکھایا ہے کہ دیکھو شادی ایسے بھی ہوسکتی ہے۔ کاش کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہمارے پیاروں کو اس وباء سے محفوظ رکھے اور جو اس میں مبتلا ہیں انہیں جلد صحت کاملہ عطا فرمائے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس نئےسال کو ہم سب کے لئے ایسا مبارک ثابت کرے کہ اس وباء کا مکمل خاتمہ ہوجائے اور ہم سب اسراف اور نمودونمایش سے بھی بچنے میں کامیاب ہوجائیں (آمین )

تازہ ترین