الیکشن کمیشن آف پاکستان ”باؤلا“ ہو گیا ہے! اس کا حال اس شوہر کا سا ہے جس نے صبح اخبار پڑھنے کے بعد اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر گرج دار لہجے میں کہا۔
”اگر حکومت میرے ہاتھ میں آ جائے تو میں اس ملک کی تقدیر بدل دوں!“
جس پر بیوی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”پہلے اپنی شلوار تو بدل لو، صبح سے میری شلوار پہنے گھوم رہے ہو!“
اچھے بھلے الیکشن ہو گئے، ہمارے الیکشن کمیشن کی اوقات کھل کر سامنے آ گئی، ہمارے قانونی اور عدالتی نظام کا اچھی طرح پتہ چل گیا۔ امیدواروں کی ”ڈنڈے“ کی طاقت مسلّم ہو گئی… جس نے جیتنا تھا، وہ جیت گیا، جو ہار گیا، وہ روتا رہے۔ جب سب کچھ نمٹ گیا تو الیکشن کمیشن کیوں بار بار پنگا لے رہا ہے!
مثلاً الیکشن کمیشن کے ٹھیکیدار سیکرٹری جناب اشتیاق احمد خاں (ٹھیکیدار اس لئے کہ موصوف اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے کب کے ریٹائر ہو چکے ہیں، اب وہ کنٹریکٹ پر نوکری کر رہے ہیں۔ کنٹریکٹ کو اردو میں ٹھیکہ ہی کہتے ہیں۔ ویسے اردو میں ٹھیکے کے اور مطلب بھی ہیں، ایک ٹھیکہ طبلے پر بھی لگایا جاتا ہے۔ موجودہ انتخابات اور طبلے کے ٹھیکے میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں تھا) نے ارشاد فرمایا کہ:
”انگوٹھے کے نشان سے جعلی ووٹ کا پتہ چلانے کا حتمی فیصلہ الیکشن ٹربیونل کریں گے۔ اس سلسلے میں نادرا کو اپنا سافٹ ویئر اپ گریڈ کرنے میں دو ہفتے لگیں گے۔ جس کے بعد انگوٹھے کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق ہو سکے گی… پریذائیڈنگ افسروں سے ایک ایک بیلٹ پیپر کا حساب لیا جائے گا۔ اگر شناختی کارڈ اور انگوٹھے کے نشان کے بغیر بیلٹ پیپر جاری ہوا تو پریذائیڈنگ افسر کے خلاف کارروائی ہو گی۔“
اخلاقیات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اشتیاق خاں کی شان میں کوئی گستاخی کی جائے مگر ان کا یہ بیان ایک لغو بیان ہے اور معاملات پر پردہ ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش۔ وہ ایسے بیانات دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ”انتخابات واقعی الیکشن کمیشن نے ہی کرائے ہیں۔“ وہ یہ بھی باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن بااختیار ہے۔ یہ دونوں باتیں صریحاً غلط ہیں!
کیسے …آیئے ثابت کرتے ہیں!
پہلی بات وہ یہ کر رہے ہیں کہ انگوٹھے کے نشان کو NADRA کے ڈیٹا میں موجود تمام ووٹروں کے انگوٹھوں سے ملایا جائے تاکہ اصلی اور جعلی انگوٹھے میں فرق ثابت کیا جا سکے! عرض یہ ہے کہ ووٹ کی پرچی پر تو انگوٹھے کا نشان ہوتانہیں ۔ انگوٹھے کا نشان تو بیلٹ پیپر سے منسلک پرچی پر ہوتا ہے جو پریذائیڈنگ افسر کے پاس ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ یہ ثابت بھی ہو جائے کہ کچھ انگوٹھوں کے نشانات، ووٹروں کے انگوٹھوں سے Match نہیں کرتے تو پھر کیا فرق پڑے گا؟ووٹ تو جس کو ڈلنا تھا، ڈل گیا، اب ”بااختیار“ الیکشن کمیشن یہ کیسے ثابت کرے گا کہ کون سا بیلٹ پیپر اصلی تھا، کون سا جعلی طریقے سے ڈالا گیا… جعلی ووٹ کس کو ڈالا گیا، جیتنے والے کو یا ہارنے والے کو…! پھر نادرا کی اپنی Capacity کیا ہے؟ وہ انگوٹھوں کے نشان کی یہ بے معنی ایکسرسائز کتنے عرصے میں مکمل کرسکتاہے!! شاید مہینوں میں! شاید برسوں میں! یوں انگوٹھوں کی شناخت کا یہ بیان، محض لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ جو ہونا تھا، ہو چکا! اب لوگوں کو بہلا وے دے کر محض اپنی عزت بچانا مقصود ہے!
پھر یہ کہنا کہ پریذائیڈنگ افسروں سے ایک ایک بیلٹ پیپر کا حساب لیا جائے گا! ایک انتہائی بھونڈا مذاق ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام اسلام آباد میں اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے باہر نکلے ہوتے تو انہیں پتہ چلتاکہ انتخابی عملے میں شامل ٹیچرز ، لیکچرارزاور دوسرے محکموں کا ماتحت عملہ کس ذلت اور مجبوری کے ساتھ اس انتخابی عمل میں شریک ہوا خصوصاً خواتین کا جو حشر ہواوہ اگر کھل کر بیان کیا جائے تو الیکشن کمیشن خود ”سیاپا“ شروع کردے! خود میری ایک جاننے والی خاتون (میں اس خاتون کا نام نہیں لکھ رہا۔ وہ خاتون اتنی خوفزدہ ہے کہ اس نے مجھے اپنا نام نہ لکھنے کی قسم دے رکھی ہے) پریذائڈنگ افسر کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دن بارہ بجے تک سب ٹھیک چلتا رہا۔ دوپہر کے وقت کچھ مسلح افراد نے پولنگ سٹیشن پر قبضہ کرلیا اور خواتین پر مشتمل عملے کو بھگانے کی کوشش کی۔ مزاحمت کرنے پر اس پریذائیڈنگ افسر کے گلے میں اسی کا دوپٹہ ڈال کر گھسیٹا گیا اور اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کردیاگیا۔ شام آٹھ بجے اسے کوٹھڑی سے نکال کرگن پوائنٹ پر نتائج کے کاغذوں پر دستخط کرائے گئے اور منہ کھولنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر گھر بھجوادیاگیا!
یہ ایک جگہ کا واقعہ نہیں… ایسی ہزاروں داستانیں ہیں۔ سارے ٹی وی چینل یہ سب کچھ قوم کواورالیکشن کمیشن کو روزانہ دکھا رہے ہیں۔ یہ سب ہوتا دیکھ کر سیکرٹری الیکشن کمیشن ، پریذائڈنگ افسروں سے بیلٹ پیپروں کا حساب لیں گے، … شاید اپنا دماغ خراب ہو گیاہے، اشتیاق خاں صاحب درست فرماتے ہیں!اشتیاق خاں صاحب کے لہجے سے لگتا ہے کہ ان کا تعلق چکوال کے علاقے سے ہے مگر اپنی گفتگو اور بیانات سے وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کی ذہانت اصلی خاں صاحب کے برابر ر ہی ہے؟ایک خاں صاحب اپنے دوست کے ساتھ اس کی زمینوں پر سیر کرنے گئے۔ ایک کھیت کو دیکھ کر پوچھا۔”خوچہ… یہ کس چیز کا کھیت ہے؟“دوست نے بتایا ”خاں صاحب یہ کپاس کا کھیت ہے!“خاں صاحب بہت خوش ہوئے اور بولے … ”اچا… تو خوچہ، اس میں سے شلوار قمیص کا پوداکون سا ہے؟“تو خاں صاحب… آخر میں ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں!”جب تمہارے پلے ہی کچھ نہیں ہوتا … تو الیکشن کیوں کراتے ہو؟“