• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں اُلجھے ہیں یا اُلجھا دیئے گئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہو رہا کہ پاکستان کتنے بڑے ریاستی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کا شکار ہے اور یہ بحران ہمارے ملک کو اور بحیثیت قوم ہمیں کس طرف لے جار ہے ہیں؟ اگر ان بحرانوں کا ادراک کرنا ہے تو بلوچستان کے علاقہ مچھ میں مظلوم ہزارہ برادری کے مزدوروں کے قتل اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تھوڑا سا غورکر لینا چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ہم نے آنکھیں بندکر لیں اور حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یہ ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے کہ ہم حقائق سے چشم پوشی کرنے کے لئے اپنے آپ کو اُلجھا کر رکھتے ہیں، شایدہم اسی بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں کوئی اُلجھا کر رکھے اور ہم اپنے مغالطوں پر دانشوری کریں یا مرتے پیٹتے رہیں۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ 2019ء کو مسجد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس پر نیوزی لینڈ کے شہریوں نے بحیثیت قوم جو ردعمل ظاہر کیا تھا، اس سے ہم پاکستانی اپنے رویوں کا موازنہ تو کر رہے ہیں لیکن ہم پھر بھی اپنے اصل بحرانوں کا ادراک کرنے سے کتراتے رہے۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن سیاہ شلوار قمیض پہن کر مقتولین کے ورثاء کے پاس پہنچ گئی تھیں اور اُنہوں نے نہ صرف ورثاء کی طرح ماتم و گریہ کیا بلکہ دہشت گردی کی مذمت کرنے کیلئے جو بیانیہ اختیار کیا، اس میں کوئی خوف یا سمجھوتہ نہیں تھا۔ اس بیانیے سے لگ رہا تھا کہ نیوزی لینڈ کسی ریاستی، سماجی اور سیاسی بحران کا شکار نہیں ہے۔ ہمارے شہر کوئٹہ میں مقتولین کے ورثاء کئی دنوں سے لاشیں رکھ کر بیٹھے رہے اور یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود آجائیں اور انہیں یقین دہانی کرائیں کہ آئندہ ایسا قتل عام نہیں ہوگا تو وہ اپنے پیاروں کی میتیں دفنا دیں گے لیکن وزیراعظم عمران خان بوجوہ 6 دن تک مظلوم لوگوں کے پاس نہ جا سکے۔ کہا جاتا رہا کہ وزیراعظم کے لئے سیکورٹی کا ایشو ہے۔ کوئی اس حقیقت کو درست الفاظ میں بیان کر سکتا ہے کہ ہماری ریاست خود کس قدر بڑے بحران کا شکار ہے؟

یہ سوال بھی ہم سب کے ذہنوں میں تھا اور ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان متاثرین کو یقین دہانی کرا بھی دیتے کہ آئندہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے گا تو کیا واقعی ایسے واقعات مستقبل میں نہیں ہوں گے؟ جب ہزارہ برادری کے لوگ لگ بھگ سو مقتولین کی لاشیں رکھ کر بیٹھے تھے اور وزیراعظم راجہ پروزیر اشرف نے ان سے آکر تعزیت کی تھی اور یقین دہانی بھی کرائی تھی تو کیا اس کے بعد بلوچستان میں ہزارہ برادری سمیت دیگر لوگوں کا قتل عام نہیں ہوا یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں لوگ دہشت گردی میں نہیں مارے گئے؟ آج بھی ہزارہ برادری کے متاثرین سمیت پوری قوم کو یہ علم ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی یقین دہانی سے بھی کچھ خاص نہیں ہوگا۔ ویسے بھی داخلی سیکورٹی کے امور پر سویلین حکومت اور سویلین فورسز کا عمل دخل رسمی اور واجبی سا ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کیا کریں گی یا کر سکتی ہیں؟ داخلی سیکورٹی کے امور میں سویلین حکومتوں کی ناکامی انہیں مسلسل سیاسی اور دیگر امور میں پسپائی کی طرف لے گئی اور اب پاکستان صرف سیکورٹی ایشو پر چل رہا ہے اور اس نظام کے لئے بدامنی ازخود ضروری ہے۔ دہشت گردوں اور قاتلوں کا اس نظام میں ایک مضبوط اور مستقل کردار ہے ۔ بقول غالب

شرع و آئین پر مدار سہی

ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

ہم سب یہ جانتے ہوئے کہ وزیراعظم عمران خان کی یقین دہانی کے باوجود دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا ، ہم اگلا سوال خود نہیں کرتے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہوگا ؟ 1980ء کے عشرے سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی ایک کار مسلسل (Phenomenon) بنی ہوئی ہے۔ اس کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ یہ اب ایساسوال ہے، جس کا کوئی جواب نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کو اس بات پر کون قائل کرتا رہا کہ وہ کوئٹہ نہ جائیں، حالانکہ وزیراعظم کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہو گا۔ ملک بھر میں احتجاج ہو رہا تھا۔کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہر بند رہے۔ قومی شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا گیا اور ایک مرحلے پر پورے ملک میں زندگی مفلوج رہی، پھر وزیراعظم کے کوئٹہ جانے یا نہ جانے میں ان کی اپنی مرضی کارفرما تھی یا معاملہ کوئی اور تھا؟ کیا اس معاملے پر بھی کوئی سیاست کر رہا تھا تاکہ ملک کی حالیہ سیاست کا رخ موڑا جا سکے؟

اس صورت حال میں بھی ہمارے سماجی رویے انتہائی افسوس ناک ہیں، بہت سے حلقوں اور گروہوں نے تو متاثرین سے اظہار ہمدردی تو کجا، اس قتل عام کی مذمت تک نہیں کی۔ وہ اسے مسلکی فرقہ وارانہ یا گروہی معاملہ قرار دیتے رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم سماجی طور پر کس قدر تقسیم ہیں اور تعصبات، تنگ نظری اور نفرت نے بحیثیت قوم ہمیں سیاسی طور پر کتنا کمزور کر دیا ہے اور ہمارے سماجی رویے کس قدر ہمارے ذہنوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہم ایسی صورت حال کا کیونکر مقابلہ کر سکتے ہیں، جس میں دہشت گرد ہمیں روزانہ سانحات سے دوچار کرتے ہیں اور ہمارے حکمراں بوجوہ تعزیت کرنے بھی نہیں جا سکتے۔ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں بھی ہمارے لئے کوئی ایسا راستہ نہیں ہے، جو ہمیں ان بحرانوں سے نکال سکے ۔ میں بھی غالب کی زبان میں یہی کہوں گا کہ

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

تازہ ترین