نئےسال کی ابتدا میں ہی ڈاکو روایتی طور پر سر گرم نظر آرہے ہیں، گزشتہ دنوں ڈکیتی کی 2بڑی واردتیں سامنے آئیں، جس میں ڈاکوؤں نے مزاحمت پر سندھ مدرستہ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کےپوتے اور بزنس مین زین حسن آفندی کو قتل کر کے بآسانی فرار بھی ہو گئے،جس نے کرا چی پولیس کی کارکردگی پرسوالیہ نشان لگا دیاہے۔شہر میں آن لائن فوڈ ڈلیوری کی آڑمیں ڈکیتی کی واردات کا ایک نیا رجحان بھی سامنے آیا، جس نے شہریوں کو خُوف میں مبتلا کردیا ہے،جو کسےالمیے سے کم نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں علی الصباح جمشید کوارٹر تھانے کی حدود مزار قائد کے سامنے کاسمپولٹین اسکول کے قریب بزنس مین زین حسن علی آفندی کے بنگلہ نمبر 6پر ڈاکوؤں نے دھاوا بول کر مرکزی گیٹ پر تعینات چوکیداروں کو رسی سے باندھا اور بنگلے میں داخل ہو کراہلخانہ کو یرغمال بنا لیا اور مزاحمت کرنے پر اہلیہ کے سامنے 50سالہ زین حسن آفندی ولدذوالفقار حسن علی کو سر پر گولی مار کر قتل کردیا اور بآسانی فرار بھی ہو گئے اور ساتھ ساتھ ملزمان نے گھر سے2 موبائل فونز ، پرس ،لاکھوں روپےاور طلائی زیوارت لُوٹ لیے۔
دوسری جانب بوٹ بیسن تھانے کی حدود کلفٹن بلاک7 میں بھی 5 نقاب پوش مسلح ڈاکوؤں نےبزنس مین ظفر احمد کے بنگلہ نمبر D72/7 میں ملزمان ساڑھے پانچ بجے صبح بنگلے کی گِرل توڑ کر اندر داخل ہوئے اور پُوری فیملی کو یرغمال بنایا اورہاتھ پیر باندھ کر آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور 70لاکھ سے زائد مالیت کا سامان سمیت ملکی اور غیر ملکی کرنسی لوٹ کر بآسانی فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے ۔ متاثرہ بزنس مین ظفر کے مطابق ملزمان بار بار کہتے رہے!! ’’پیسے اور سونا دے دو ورنہ بچے کو مار دیں گے‘‘، ملزمان ایک گھنٹے تک بنگلےمیں لاٹ مار کرتے رہے ۔ پانچوں ڈاکوؤں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے۔
ڈاکوؤں نے 25 تولے سونا، 22 لاکھ 50 ہزار مالیت کے امریکی ڈالرز، 9 لاکھ روپے پاکستانی روپے، 2 آئی فونز، لائسنس یافتہ ایک نائن ایم ایم پستول،2 رائفلز اور گھر میں موجود قیمتی گھڑیاں اور دیگر سامان لوٹنے کے بعد بآسانی فرار ہوگئے۔ ریڈ زون میں ایک گھنٹے کے دوران2بزنس مینوں کے بنگلے لوٹ لیے گئے ۔
فیروز آباد پولیس نے پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 طارق روڈ کے قریب کارروائی کر کے آن لائن فوڈ سپلائی چین کی آڑ میں شہریوں کو لوٹنے والے ملزم عبدالروف کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے اسلحہ برآمد کر لیا، ملزم نے دوران تفتیش21 وارداتوں کا اعتراف بھی کیا ہے، ملزم شہری سعید اللہ سے اسلحے کے زور پر15ہزار روپے لوٹ کرفرارہو رہا تھا کہ اس نے شور کیا ،جس پر علاقہ مکینوں نے ملزم کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔
ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ فوڈ سپلائی کرنے کے لیے شہری کی بتائی ہوئی لوکیشن کے قریب جا کر اسے موبائل فون پر کال کرتا تھا، اگر شہری اسے گھر میں بلا لے تو اسے گھر میں اسلحے کے زور پر لُوٹ لیتا ، اگر کوئی شہری گھر کے گیٹ پر آتا تو اسے گیٹ پرہی لوٹ لیتاتھا،ملزم کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 10 ماہ سے نجی آن لائن فوڈ سپلائی چین میں کام کر رہا ہے۔ اور موجودہ مہنگائی کے اس دور میں گھر چلانا مشکل ہے،جس کے باعث لاٹ مار کا یہ راستہ اختیار کرناپڑا ۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ گھروں میں ڈکیتی کی وارداتوں اکثرو بیش تر گھریلو ملازمین ہی ملوث نکلتے ہیں ۔ ایک ایسا ہی واقعہ گلشن اقبال مدراس کالونی میں پیش آیا،جس میں گھریلو ملازمہ نے گھر کے مالکان کو زہر دے کر گھر کا صفایا کردیا اور فرارہو گئی، بیٹے محمد عارف کے مطابق والدین نے ملازمہ آسیہ نےاس روز بریانی بنائی، اور اُس نے بریانی میں زہر ملادیا،جس کے کھانے بعد والدہ جاں بحق ہوگئیں،جب کہ والد کی جان بچ گئی، وہ اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد صحت بہتر ہو نے پر گھر منتقل ہو گئے ہیں ، بیٹے عارف نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ ملازمہ آسیہ کو چند روز قبل ہی ملازمت پر رکھا تھا،میں جب شام کو دفتر سے واپس آیا تو والدین سورہے تھے، ساڑھے 6 بجے تک والدین نہیں اٹھے تو انہیں اسپتال لے کر گیا، بھائی نے بتایا کہ والدین نے ملازمہ کے ہاتھ کی بنی بریانی کھائی تھی، گھر آکر دیکھا تو گھر سے5 لاکھ روپے اور ملازمہ آسیہ غائب تھی ، والدہ چند روز اسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد دم توڑ گئیں، جب کہ والد کو اسپتال سے گھر منتقل کردیا گیاہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کی جانب سے سال نو کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی روک تھام کے لیے بنائی گئی نئی حکمت عملی کہ ہو ائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف اقدام قتل کی دفعہ 307کے تحت مقدمہ درج ہو نے کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال مجموعی طورخاتون سمیت4 افراد ہوائی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
دوسر ی جانب خلاف ورزی کر نے والےمجموعی طور پر2طالب علموں سمیت16 منچلوں کوگرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے ۔گرفتار ہو نے والے طلباء کو اس بات کااندازہ بھی نہ ہوگا کہ ہو ائی فائرنگ کے جُرم کا ارتکاب کر کے وہ کرائم ریکارڈ میں شامل ہو گئے ہیں ۔ پولیس کی تصدیق کے بغیر وہ نہ تو بیرون ملک سفر کرسکیں گے اور نہ ہی اعلی تعلیم کے حصول میں کے لیے جاسکیں گے ۔ کیوں کہ انھیں جہاں کہیں بھی پولیس تصدیق کی ضرورت پڑی، تو ان کا کرائم ڈیٹا ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ ہوائی فائرنگ کرنے والے ان طلباء کے مسقبل پر کئی وسالات جنم لے رہیں ہیں۔