• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

احتجاجی نہیں، پارلیمانی سیاست میں ہی جہموری بقاء ہے

وطن عزیز میں ان دنوں سیاسی بھونچال جس عروج پر ہے جلسے، جلوس، ریلیاں ، دھرنے، ہڑتالیں، ڈیڈ لائنز اور مطالبات کا ہنگامہ ایسا تو شاید الیکشن کے قریبی دنوں میں بھی دیکھنے کو نہیں آتا۔ حکومت مخالف جماعتوں کا سیاسی اتحادـ ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کی بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے حکومت کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ ایک محاذ اپوزیشن کھولتی ہے اور تین محاذحکومت اپنی غلطیوں سے کھول کر اپوزیشن کیلئے آسانیاں اور اپنے لیے خود مشکلات پیدا کرلیتی ہے، اپوزیشن نے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنے کا اعلان کیا تو حکومت کے پانچ بھاری بھرکم وزرا جن میں وزیرداخلہ، شیخ رشید، وزیراطلاعات، شبلی فراز، وزیرقانون، فروغ نسیم، وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اوروزیر دفاع پرویز خٹک بھی شامل تھے۔ متفقہ پریس کانفرنس کرنے کیلئے یکجا ہوگئے۔ 

پانچ وزرا اور نو منٹ کی پریس کانفرنس خود حکومت کی پریشانی کی غمازی کررہی تھی۔ مسلم لیگ(ن) کے راہنما شاہد خاقان عباسی گئے تو امریکہ تھے لیکن ان کی واپسی براستہ لندن ہوئی اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ’’ دلوں کے وزیراعظم‘‘ میاں نواز شریف سے ملاقات نہ کرتے اطلاعات یہ ہیں کہ مشاورت اور پیغامات اتنی اہم نوعیت کے تھے کہ ایک سے زیادہ ادوار ہوئے جن میں اسحاق ڈار بھی شریک تھے۔ جس کے بعداپوزیشن کی حکمت عملی اور خاص طور پر میڈیا پرطرز عمل زیادہ جارحانہ ہوتا دکھائی دیا ۔۔۔ چند ہفتوں سے مارچ کے مہینے کا حوالہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا تھا گوکہ یہ اہمیت اب بھی برقرار ہے۔

لیکن اس کی نوعیت میں کچھ دکھائی نہ دینے والی تبدیلیاں بھی ہیں۔جن کے محرکات پرنظر ڈالی جائے تو ’’براڈ شیٹ کیس‘‘ سامنے آتا ہے۔جس میں ثالثی عدالت نے تمام تر ذمہ داری نیب پر ڈالی ہے اور اب ’’براڈ شیٹ ـ‘‘کے کرتا دھرتا ایک صاحب جن کی کوئی مستند حیثیت نہیں۔ وہ کم و بیش روزانہ کسی نجی ٹی۔ وی پر انٹرویو دیتے نظر آتے ہیں۔ گوکہ حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے اپنی اپنی فتح کے دعوے کر رہے ہیں لیکن انحصار نتائج پر ہوگا۔ وفاقی کابینہ کے جتنے اجلاس ہوتے ہیں اتنی افواہیں، قیاس آرائیاں اور وزرا کے درمیان جھگڑوں کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ندیم افضل چن کے استعفے کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی ہے اور شنید ہے کہ مارچ سے پہلے یا پھر فوری بعد وفاقی کابینہ میں نئے چہروں کی واضح اکثریت ہوگی تاہم اگر مارچ کی اہمیت کو فارن فنڈنگ کیس کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات خاصی واضح نظر آتی ہے۔ 

اس حوالے سے قانون نہ صرف واضح ہے بلکہ انتہائی سخت بھی ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی بیرون ملک سے فنڈز نہیں لے سکتی اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی نے بیرون ممالک سے فنڈز لیے ہیں تو اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ظاہر اگر ایسا ہوتا ہے تو اس جماعت سے وابستگی رکھنے والے تمام اراکین پارلیمنٹ ایم۔این۔اے، ایم ۔پی۔اے اور تمام عہدیداربھی اپنی نشستوں سے محروم ہوجائیں گے۔اب پاکستان تحریک انصاف نے کئی سال قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی پرالیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کے حوالے سے رٹ دائر کی تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف خود ان کی جماعت کے ایک سینئر رکن اکبر ۔ایس۔بابر یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تھے۔ 

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں بھی اس ضمن میں اہم ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ چکا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے شاید اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ لیکن اب یہ صورتحال خطرناک ہونے کی حد تک سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے اور جنوری کا اختتام یا فروری کا آغاز اس تمام صورتحال کے انجام کی اہم پیش رفت ہوگی اور پھر اس کے بعد مارچ۔ اب اگر اس صورتحال کے تناظر میں ہم پس منظر میں جائیںتو 2019 نومبر میں جب مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اس 13 روزہ دھرنے کو ختم کرانے کے حوالے سے جو اعلانیہ کردار سامنے آئے تھے ان میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی بھی شامل تھے۔ 

جنھوں نے مبینہ طور پر مولانا کو یقین دھانیاں کرائی تھیں کہ مارچ میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوجائیگی گوکہ یہ بات دھرنا ختم کیے جانے کے بعد مختلف ذرائع سے سامنے آئی تھی کیونکہ چوہدری برادران حکومت کے اتحادی تھے اس لیے انھوں نے یہ بات منظر عام پر لانے سے روکی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ چوہدری برادران کی بات درست تھی لیکن مارچ کا حوالہ2020 کا نہیں بلکہ 2021 کا تھا پھر اپوزیشن کم و بیش ایک سال سے مسلسل اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ اگر وہ حکومت کا دفاع نہ کرے۔

اسے سہارا نہ دے اسکی غلطیوں کو نظر انداز نہ کرے تو موجودہ حکومت چند ہفتوں میں دھڑام سے گر جائے گی جبکہ اپوزیشن اتحادکے دیگر راہنما جن میں مولانا فضل الرحمٰن سر فہرست ہیں وہ غیر مبہم الفاظ میں پی۔ڈی۔ایم کے جلسوں میں بار بارعسکری شخصیات اور اداروں کو اس حوالے سے مورد الزام ٹھہرا چکے ہیں اور ’’راولپنڈی میں دھرنا‘‘دینے کی بات بھی کرچکے ہیں انھوں نے ہزاروں کے مجمع میں یہ بھی کہا کہ ہم اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ حکومت کی حمایت ترک کردیں تو ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں۔ دوسری طرف عسکری قیادت نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ اپوزیشن پر یہ واضح کیا ہے کہ وہ’’ عوام کی منتخب حکومت کی حمایت اور ہدایات پر عمل کرنے کے آئینی وقانونی طور پر پابند ہیں‘‘۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر کل کوئی دوسری حکومت آجاتی ہے تو ہم اسکی بات مانیں گے۔ لیکن کسی حکومت کو ہٹانا اور اسکی جگہ کوئی دوسری حکومت لانا ان کا کام نہیں ہے۔ 

کیونکہ احتجاجی سیاست کی بجائے پارلیمانی سیاست سے ہی جمہوریت مستحکم ہوگی اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا جو نیا موقف سامنے آیا ہے اس میں واضح طور پر اس بات پہ زور دیا گیا ہے کہ تبدیلی جمہوری انداز سے ہونی چاہیے جسکا سب سے موثراور قانون وآئین کے مطابق جمہوری رستہ عدم اعتماد کی تحریک ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اس موقف سے اپوزیشن کی جو جماعتیں متفق نہیں ہیںان کے پیش نظر’’ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کے نتائج ہیں‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم نے آئندہ ماہ فروری کے لیے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے .یہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ ان احتجاجی پروگراموں میں پیپلز پارٹی کی شرکت یقینی ہو اور اگر اپوزیشن اتحاد کا بھرم رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی شرکت بھی کرتی ہے تو ہو سکتا ہے اس کی نمائندگی بلاول بھٹو کی بجائے راجہ پرویز اشرف یا اسی سطح کے دوسرے قائدین کریں۔

لیکن مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں کہ انہوں نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہے.الیکشن کمیشن اسلام آباد کے سامنے اپوزیشن کا اصل شو بھی مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کی تقاریر کے حوالے سے ہی تھاجس میں ان دونوں رہنماؤں نے ”فارن فنڈنگ کیس“ کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائدین کو مطعون ٹھہرایااور حکومتی رہنما جن الفاظ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پر الزامات کی بارش کرتے ہیں کم و بیش انہی الفاظ میں یہ ”حساب کتاب چکتا“ کرنے کی کوشش کی.جہاں تک عوامی نیشنل پارٹی کا تعلق ہے تو پارٹی قائد اسفند یار ولی خان تو طویل عرصے سے صاحب فراش ہیں اور ان کی سیاست محض بیانات تک ہی محدود ہے اور اب تو ان کے صاحبزادے ایمل اسفند ولی خان بھی پی. ڈی. ایم کی سرگرمیوں میں کم کم ہی شامل ہوتے ہیں اور پی.ڈی. ایم میں اے. این. پی کی نمائندگی میاں افتخار حسین ہی کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اے. این. پی جب نیپ کے نام سے سیاست کرتی تھی تو غالباً یہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس پر ”فارن فنڈنگ“ کے الزامات پر پابندی عائد کی گئی تھی.موجودہ حکومت کے دور میں یہ پہلا موقع تھا کہ حکومت کے خلاف کسی احتجاجی جلسے کے کارکنوں اور قائدین کو اسلام آباد کے”ڈی ایریا“ میں جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہاں یہ بات بھی ماننی پڑے گی.شیخ رشید نے صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لئے صحیح معنوں میں وزیر داخلہ کا کردار ادا کیااور وزیراعظم عمران خان کی دور اندیشی کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے وزراء کی خاموش مخالفت کے باوجود شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا منصب دے کر اپنے فیصلے کو درست ثابت کردیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین