• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں فن کار جوڑے، گلوکار بہنوں کی جوڑی اور بھائیوں کی جوڑی کافی مشہور ہے۔اسی طرح گلوکار بہنوں میں ماضی ے مقبول اسٹیج شو ’’سلور جوبلی ‘‘ سے شہرت پانے والی بینجمن سسٹرز، مونا سسٹرز، لاہور کی مونا صدیق اور شبنم صدیق اور دیگر بہت مشہور ہوئیں۔آج ہم کچھ ایسے بھائی بہنوں کا تذکرہ کریں گے جو اسٹارز ہیں۔ اسٹار والدین کے اسٹار کڈز تو ہیں، ہی بہت نامی گرامی ، یہ وہ بچے ہیں، جو صرف اس لیے مشہور ہوئے کہ ان کے والدین مشہور ہیں۔ اسٹار والدین کے اسٹار کڈز ہونا اچھی بات ضرور ہے، مگر اُس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ وہ اسٹار بچے خود بھی زبردست فن کار ہوں۔

ہمارے یہاں ایسی بہت مثالیں موجود ہیں کہ والدین نے بھی نام کمایا اور ان کے بچوں نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس حوالے سے سب سے بڑی مثال پٹیالہ گھرانے کے استاد حامد علی خان اور ان کے بچے یعنی راگا بوائز کی ہے۔ حامد علی خان کے والد، چچا، بچے سب ہی مانے ہوئے فن کار ہیں۔ راگا بوائز حامد علی خان کے تین ہونہار بیٹھے ہیں، جو کلاسیکی نیم کلاسیکی اور پاپ اور جدید موسیقی پر عبور رکھتے ہیں۔ راگا بوائز نامی یہ میوزیکل بینڈ یا گلوکار بھائیوں کی جوڑی دُنیا بھر میں مقبول ہے اور یہ بھائی دنیا کے مختلف ممالک میں شوز کرتے رہتے ہیں۔ راگا بوائز کے وِلی حامد گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اداکار بھی ہیں اور ایک فلم’’ عشق پازیٹو‘‘ میں اپنےفن کا جادو جگا چکے ہیں۔

دنیائے موسیقی میں یُوں تو اور بھی بہت مقبول گلوکار بھائی بہن ہیں، جیسے مائیکل جیکسن اور ان کی بہن جینٹ جیکسن، مگر پاکستان میں اگر کوئی اس حوالے سے سرفہرست ہے، تو وہ نازیہ حسن اور زوہیب حسن ہیں۔80ء کی دہائی میں فلم ’’قربانی‘‘ کے گیت’’ آپ جیساکوئی میری زندگی میں آئے‘‘ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والی نازیہ حسن صرف سولہ برس کی تھیں، جب اُن کے نام کا ڈنکا ہر طرف بجنے لگا۔ 

پاکستان ٹیلی ویژن پر اُن کے گیت نشر ہوتے تھے، ان پروگراموں کے ہدایت کار زیادہ تر شہزاد خلیل مرحوم ہی ہوا کرتے تھے۔ ڈم ڈم ڈی ڈی ڈم ڈم، سُن میرے محبوب میں، آنکھیں ملانے والے، ڈسکو دیوانے، دل کی لگی اور دوستی جیسے مقبول گیت گانے والی نازیہ کی شہرت کو چار چاند اس وقت لگے، جب انہوں نے اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ مل کر پرفام کرنا شروع کیا۔ دونوں بھائی بہن جب ایک ساتھ ناچتے گاتے تو لگتا کہ بس زندگی اسی کا نام ہے۔ نازیہ حسن کا ایک گیت جسے سلطانہ صدیقی نے پیش کیا ’’ٹالی دے تھلے‘‘ اس گیت نے نازیہ کی شہرت میں زبردست اضافہ کیا۔ نازیہ اور زوہیب کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں پہلی بار گانوں کی وڈیوز کو فروغ دیا۔ 

نازیہ اور زوہیب موسیقی میں نوجوان نسل کے نمائندہ گلوکار بھائی بہن تھے، جنہیں زمانے کی نظر کھا گئی۔ نازیہ حسن کی زندگی کے دُکھ اور کینسر جیسے موذی مرض نے انہیں کم عمری میں موت سے ہمکنار کردیا۔ اگرچہ زوہیب حسن اب بھی کبھی کبھی گلوکاری کرتے ہیں، مگر ان کو دیکھ کر نازیہ کا ہی خیال آتا ہے۔پرستار ان دونوں بھائی بہن کی جوڑی کو بہت یاد کرتے ہیں۔

یاد تو لوگ فریحہ ضیاء اور ان کےبھائی صفدر ضیاء اور کامران ضیأء کو بھی بہت کرتے ہیں۔ فن کار بہن بھائیوں کی یہ جوڑی 90ءکی دہائی میں مقبولیت کے عروج پر تھی۔ ان کے والد حیدر ضیاء نامور اداکار ہیں اور ففٹی ففٹی کے خاکوں میں اپنے جوہر دکھا چکےہیں۔فریحہ ضیاء اپنی نجی مصروفیات کے باعث گلوکاری جاری نہ رکھ سکیں، جب کہ ان کے برادران صفدر اورکامران کو وقتاً فوقتاً ہم گلوکاری کرتے دیکھتے رہتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال تہمینہ سردار اور ان کے بھائی سجاد سردار کی ہے، یہ بھائی بہن بھی اسٹیج پر گلوکاری کرتے تھے، پھر تہمینہ کی شادی ہوگئی اور انہوں نے گائیکی کا سلسلہ ترک کر دیا۔ ان کےبھائی سجاد سردار گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے میوزیشن بھی ہیں، وہ گِٹار بہت عمدہ بجاتے ہیں۔ سجاد سردار کو ایک مرتبہ ہم نے اپنے جیو ٹی وی کے مارننگ شومیں مدعو کیا تھا، جہاں انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور بہت داد سمیٹی۔

کومل رضوی اور ان کے بھائی حسن رضوی بھی فن کار بہن بھائی کی جوڑی میں شامل ہیں۔ کومل اداکارہ اور گلوکارہ ہیں ، جب کہ ان کے بھائی کوریو گرافر، حسن رقص کی تعلیم بھی دیتے ہیں اور کومل کی بہت ساری وڈیوز میں انہوں نے کوریوگرافر بھی کی ہے، جب فن کار بھائی بہن کاذکر ہو رہا ہے، تو یاسر اختر اور شازیہ اختر کا بھی تذکرہ ضروری ہے۔ 

برسہا برس پہلے دونوں نے اپنے فنی کیریئر کاآغاز شہزاد خلیل کے ڈرامے ’’دستک‘‘ سے کیا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل وہ بہ طور چائلڈ آرٹسٹ ٹی وی کمرشلزمیں کام کر چکے تھے اور اپنے ماموں جاوید جبار کی فلم Beyend the last mointain میں بھی جلوہ گر ہوئے تھے۔ تاہم ان کو اصل شہرت ڈراما دستک سے ملی۔ جاوید جبار کی فلم نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی، جس میں مرکزی کردار شمیم ہلالی نے ادا کیاتھا، جب کہ اس فلم میں نازیہ حسن اور ان کی والدہ منیزہ نصیر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

نازیہ اس وقت بہت چھوٹی تھیں۔ شادی بیاہ کی رسومات اور ڈھولکی پہ گیت گانے، تالیاں بجاتے نازیہ حسن اورمنیزہ بصیر کو کون بھول سکتا ہے۔ یاسر اختر بھی اس فلم میں موجود تھے اور چوں کہ بچپن سے ان کا رجحان اداکاری کی طرف تھا، لہٰذا بڑے ہونے کے بعد انہوں نے نہ صرف اداکاری بلکہ گلوکاری اور پروڈکشن میں بھی اپنا نام بنایا۔ 

مہرین جبار جو ایک معروف ڈائریکٹر ہیں، یاسر اختر کی کزن ہیں۔ یاسراختر ایک باصلاحیت نوجوان ہیں، جنہوں نے نو عمری میں شوبزنس میں قدم رکھا اورفن کےہرمیدان میں اپنا لوہا منوایا۔ ٹیلی ویژن، اسٹیج ، فلم ہر جگہ کام یابی حاصل کی۔ تپش، یہ جہاں، خواب سہانے، پھر یُوں ہوا، مون سون، ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔

مون سون ڈراما سیریل میں تو ہم نے بھی کام کیا تھا۔اس ڈرامے کے رائٹر اصغر ندیم سید تھے، جب کہ ہدایات تاجدار عالم نے دی تھیں۔ فن کاروں میں یاسراختر اور ہمارے علاوہ خیام سرحدی، فیصل رحمٰن، شائستہ جبیں، علی طاہر، وجیہہ طاہر، سیمی راحیل، زیب چوہدری، نبیل، شارقہ فاطمہ اور نسرین قریشی شامل تھے۔ یہ ڈراما اس لحاظ سے یادگارتھا کہ اس میں لاہور، کراچی، پشاور، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے مختلف فنکار اکٹھے تھے۔ ڈرامے کی شوٹنگ زیادہ تر آئوٹ ڈور میں ہی ہوتی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے، لہٰذا طے یہ پایا کہ گلگت میں ریکارڈنگ کی جائے۔ 

مون سون کی ریکارڈنگ بہت یاد آتی ہے۔ یاسراختر، نسرین قریشی اور خیام سرحدی بہت خوش مزاج لوگ تھے۔ فیصل نعمان اور شارقہ فاطمہ کو ہم نے سنجیدہ پایا، جب کہ ڈرامے کے پروڈیوسر یٰسین ملک بھی لطیفے سناتے،گیت گنگاتے اور اشعار سننے کے شوقین تھے۔ خیام سرحدی اور یٰسین ملک اب دنیا میں موجود نہیں، اللہ ان کی مغفرت کرے۔ شارقہ فاطمہ بھی اپنے ڈراموں سے دور ہو گئیں۔ یاسر اختر کو البتہ ہم اکثر و بیش تر خبروں ہی میں دیکھتے ہیں۔ کبھی ان کی کسی فلم کا احوال ہوتا ہے، تو کبھی کسی غیرملکی ڈرامے کاتذکرہ۔ ہم قارئین کو بتلا دیں گے یاسر اختر کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں اور جہاں انٹرنیشنل پروجیکٹس پرکام کرتے رہتے ہیں۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری ان کا شوق ہے۔

ان کا ایک مشہور ڈراما میوزیکل بینڈ کے بارے میں تھا۔ یاسر بہت اچھے گلوکار ہیں اور انہوں نے Arid Zone ایرڈزون کے نام سے ایک میوزک سینٹر بھی اپنے کیریئر کے ابتدائی برسوں میں لانچ کیا تھا۔ وہ آج کل اپنی ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ یاسر اختر کی ہمشیرہ شازیہ اختر ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں ۔ تاہم ناظرین منتظر ہیں کہ کب اپنی پسندیدہ فن کارہ کو کسی ڈرامے میں کام کرتے دیکھیں گے۔ شازیہ نے کچھ برس قبل بوتیک کا کام شروع کیا تھا۔ پھر وہ بند ہو گیا۔ امید ہے کہ شازیہ اختر جلد کسی فلم یا ڈرامے میں جلوہ گر ہوں۔ صلاحیتوں سے مالا مال بہن بھائی شازیہ اور یاسر اختر کے پرستار انہیں اسکرین پر دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین