سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سےکرانےسے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدرمملکت کو آرڈیننس کے اجرا سے نہیں روکا جاسکتا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرموثر ہوجائے گا،جسٹس عمرعطا بندیال بولے آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟ ہم نے ملک میں اچھے سیاستدان بھی دیکھے ہیں، سب سیاستدانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سےکرانےسے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی اور الیکشن ایکٹ سےمتعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر نوٹس لیا۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت میں نقطہ اٹھاتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے آرڈیننس جاری کردیا جبکہ عدالت اوپن بیلٹ کے بارے میں صدارتی ریفرنس سن رہی ہے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا، عدالتی کارروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا۔
کامران مرتضی کاکہنا تھا کہ آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی، حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے اپنا فیصلہ کرلیا، ہم نے ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست عدالت میں جمع کرا دی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست کو بھی سن لیتے ہیں اور اس پر نوٹس جاری کردیتے ہیں،لگتا ہے کہ آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے، حکومت نے آرڈیننس قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا، نہیں معلوم آرڈیننس کیسے جاری ہوا لیکن آرڈیننس تو جاری ہو چکا ہے، حکومت کوآرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگرعدالت نے رائے دی کہ سینیٹ الیکشن 226 میں نہیں آتا تو یہ آرڈیننس برقرار رہے گا، اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرموثر ہوجائے گا۔
دوران سماعت پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے آزادانہ حیثیت سے عدالت میں مؤقف پیش کیااور آرڈیننس کے اجراء پر اعتراض کیا ، رضا ربانی نے عدالت میں کہا کہ آرڈینس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کیے گیے، آرڈیننس میں لکھا ہے یہ فوری نافذ العملُ ہو گا اور اگر عدالت کی رائے حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ یہاں قانون پڑھے بغیر ہی پریس کانفرنس کردی جاتی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید کے عدالت میں دلائل کے دوران سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر جمعرات کو کیا ہوا؟ وہاں تو مختلف موقف اختیار کیا گیا۔
رضا ربانی نے کہا کہ میں سیاسی معاملے کی طرف آتا ہوں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس کی سماعت میں فریق نہیں ہیں، رضا ربانی بولے میں یہاں تصحیح کرنا چاہتا ہوں، سندھ حکومت کے ذریعے پیپلزپارٹی یہاں فریق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نا حکومت سیاسی جماعت کی طرف سے بات کرسکتی ہے نا سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے، رضا ربانی بولے حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے، اٹارنی جنرل
کہنے لگے بڑی عجیب بات ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں، جبکہ میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کررہا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینیٹ الیکشن شیڈول 11 فروری کے بعد جاری ہونے سے مسائل ہوسکتے تھے، آرڈیننس مفروضے پر نہیں ایک مشروط قانون سازی ہے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 126میں ترمیم کی گئی ہے، آرڈیننس سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں رُو بہ عمل ہوگا، پرووائزو میں ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے قرار دیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ووٹنگ سیکرٹ ہوگی لیکن بیلٹ کی بوقت ضرورت شناخت ہوسکے گی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فرض کریں سپریم کورٹ رائے دیتی نہیں دیتی تو 11مارچ کو سینیٹ الیکشن سیکرٹ ووٹنگ سے ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس کے حوالے سے دی گئی درخواست کو بھی کیس کے ساتھ سنیں گے، عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عملدرآمد عدالتی رائے سے مشروط ہوگا، آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، آرڈیننس کا عدالتی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جمعرات کو آخری سماعت ہوئی، اس روز ترمیم قومی اسمبلی سے واپس لی گئی تھی، قومی اسمبلی میں اُس روز کافی کچھ ہوا تھا، اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دوسرے ملکوں کی پارلیمنٹ میں تو کرسیاں بھی چل جاتی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شاید اسی لیے ہماری پارلیمنٹ میں کرسیاں فکس کی گئی ہیں۔