• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اطالوی حکمران مسولینی نے کہا تھا،انبوہ کم ذات ہی ہوتا ہے۔میراخیال تھا کہ انبوہ معاشرے کے پڑھے لکھے اور باشعور افراد پر مشتمل ہو تو منظم اور مہذب بھی ہو سکتا ہے ۔لیکن کالے اورسفید کوٹ والوں نے خود کوباربار جس طرح عیاں کیا ہے، اس کے بعد مسولینی کی بات پر سرتسلیم خم کردینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ابھی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجیمیں پیش آئے دلخراش واقعہ کے زخم تازہ تھے کہ وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر دھاوا بول دیا۔پرتشدد احتجاج کا سلسلہ معزز جج صاحبان کی عدالتوں تک جا پہنچا ۔توڑ پھوڑ کی گئی ،چیف جسٹس اطہر من اللہ کو محصور ہونا پڑا ۔بعد ازاں چند وکلا نے عدالت لگائی جس میں پیش ہو کر چیف جسٹس اپنی صفائی دیتے اور وضاحت پیش کرتے دکھائی دیئے لیکن مشتعل وکلا شاید ان کے دلائل سے قائل نہیں ہوئے۔اس مار دھاڑ کی وجہ یہ تھی اسلام آباد انتظامیہ نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے وکلا کے وہ چند چیمبرز بھی گرادیئے جو غیر قانونی طور پر فٹ پاتھ پر تعمیر کئے گئے تھے۔یہ طرزِعمل محض اسلام آباد ضلع کچہری یا ہائیکورٹ کے وکلا تک محدود نہیں بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پرتشدد احتجاج وکلا کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔لاہور میں ایوانِ عدل کے باہر آدھی سڑک تک وکلا کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پارک کی جاتی ہیں ۔شہر میں کہیں بھی کوئی شخص سڑک کنارے گاڑی کھڑی کرے تو اس کا چالان کردیا جاتا ہے یا پھر لفٹر کے ذریعے گاڑی اُٹھا لی جاتی ہے لیکن یہاں کسی ٹریفک اہلکار کو قانون پر عملدرآمد کرانے کی ہمت نہیں ہوتی۔پولیس اور انتظامیہ تو کیا عدالتی عملہ اور یہاں تک کہ انصاف کی مسند پر براجمان جج صاحبان مسلسل دبائو کا شکار رہتے ہیں اور کبھی کسی بھی منصف کی باری آسکتی ہے۔بعض اوقات کسی وکیل کے اسسٹنٹ کی طرف سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وکیل صاحب بے پناہ مصروفیت کے سبب تشریف نہیں لائے لہٰذا مقدمے کی سماعت ملتوی کردیں ۔اگر جج صاحب نے یہ درخواست مسترد کردی اور وکیل صاحب سیاسی طور پر متحرک ہیں تو اگلے دن ان کی عدالت کا گھیرائو کرکے متوازی عدالت لگالی جاتی ہے اور جج صاحب سائلین کی موجودگی میں کٹہرے میں کھڑے ہو کر خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔کبھی کسی جج نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی توہنگامہ ہو جاتا ہے۔اگر جج صاحب کی قسمت اچھی ہو تو ان کی عدالت کو تالا لگانے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے اور پھر متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے کہہ کر اس کا تبادلہ کروادیا جاتا ہے یا پھر زدوکوب کرنے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔اس طرح کے واقعات اکثرپیش آتے رہتے ہیں اور جب کبھی ویڈیو بن جاتی ہے تو سب لوگ اس تماشے سے محظوظ ہوتے ہیں۔اس طرح کے معاملات میں بات کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے،جیت وکلا صاحبان کی ہی ہوتی ہے کیونکہ آخر کار یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ جج صاحب کا تبادلہ کردیا جائے یا پھر معافی تلافی کروادی جائے۔جس جج کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے ،وہ زندگی بھر خوف زدگی کے عالم میں فیصلے کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوبارہ ایسی نوبت نہ آئے۔جب کبھی اس طرح کا سلوک اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے روا رکھا جاتا ہے تو وکلا قیادت جھوٹ موٹ کی ڈانٹ ڈپٹ کرکے ان وکلا کو معافی دلو ادیتی ہے ،جج صاحبان کو یاد دلایا جاتا ہے کہـ’مائی لارڈ!آپ بھی تو اس دور سے گزرے ہیں۔ اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنے اور ان کا دل جیتنے کے لئے بعض اوقات اس طرح کا جوش و خروش دکھانا پڑتا ہے۔اور پھر جب کبھی آپ پر کوئی آنچ آئی ،یہی وکلا آپ کے دست و بازو ہوں گے۔‘یوں جج صاحب کا دل پسیج جاتا ہے اور سب پرانی تنخواہ پر ہنسی خوشی کام کرنے لگتے ہیں۔کسی نے اس صورتحال پر خوب تبصرہ کیا کہ صحافیوں کی طرف سے ایک ٹویٹ پر بھی توہین عدالت لگ جاتی ہے مگر وکلا کی طرف سے پھینکی گئی اینٹ اور پتھر پر بھی عدالت کی توہین نہیں ہوتی۔

اگرچہ وکلا تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر وبیشتر اس نوعیت کے کارناموں پر خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص اپنی استعداد اور حیثیت کے مطابق ڈکٹیٹر ہے ،ہر شعبے کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے۔آپ کسی کلرک پر ہاتھ ڈالیں تو ان کی یونین سڑکوں پر آجاتی ہے،ڈاکٹروں کو ضابطے میں لانے کی کوشش کریں تو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ہڑتال کرکے انتظامیہ کو جھکنے پر مجبور کردیتی ہے،اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے اقدامات کا فیصلہ کریں تو وہ سڑکوں پر آجاتے ہیں،کسی صحافی کی گاڑی روک کر ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھ لیا جائے تو ہنگامہ ہوجاتا ہے،کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو روک لیا جائے تو ایوان میں تحریکِ استحقاق پیش کردی جاتی ہے،پولیس کو جہاں جتنا موقع ملتا ہے ،وہ من مانی کرتی ہے۔

ہر شخص اپنی الگ عدالت لگانا چاہتا ہے، سب کی خواہش ہے کہ قانون کا اطلاق ہو مگر دوسروں پر ،کڑا اور سخت احتساب کیا جائے مگر اسے استثنیٰ حاصل ہو، تمام ضابطوں اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے مگر اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ بک رہے ہیں تو ہارس ٹریڈنگ نہایت قبیح فعل ہے اسے روکا جانا چاہئے لیکن ہمیں عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کیلئے خرید و فروخت کی ضرورت پیش آئے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کوئی ہمار ی پارٹی چھوڑ کر جائے تو ’لوٹا‘لیکن کوئی ہماری پارٹی میں آئے تو ’باضمیر‘۔ ہماری جیت کا امکان ہو تو اوپن بیلٹنگ ،ہمارے ہارنے کا اندیشہ ہو تو خفیہ رائے دہی۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی وکلا نے متوازی عدالت لگا کر خود کو مقدس گائے ثابت کیا۔ دیکھئے، چیف جسٹس اطہر من ﷲ ان کی غلط فہمی دور کرتے ہیں یا اپنے ممدوح کی۔

تازہ ترین