• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمینٹ کی متفقہ قراردادیں، کمیٹیوں کے تبصرے اور آنے والی حکومت کے ممکنہ خدشات اپنی جگہ لیکن بین الاقوامی قوانین کے میدان میں پاکستان کا مقدمہ کیا ہے؟ امریکہ کے ڈرون حملوں کی قانونی اور آئینی حیثیت…؟ یہ ہے آج کا وکالت نامہ۔
پچھلے سال کے شروع میں یمنی نژاد امریکی شہری ”انورالاولاقی“ کے مقدمے کے واقعات کی روشنی میں جو کچھ ایک اُردو معاصر کے ادارتی صفحے پر میں نے لکھا اُس کی تصدیق انٹرنیشنل کرائسس گروپ پالیسی رپورٹ 247مورخہ 21 مئی 2013ء نے بھی کی ہے۔ گروپ کا ہیڈکوارٹر بیلجیم کا شہر برسلز ہے۔ اس کا یک نکاتی ایجنڈا بین الاقوامی جنگوں یا تہذیبوں کے عالمی تصادم کو روکنا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس تنظیم نے پاکستان کی حدود کے اندر امریکی ڈرون حملوں کے حوالے سے دلیرانہ رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے پاکستان کا مقدمہ وہ لڑ رہے ہیں جنہیں اس سرزمین کی نہ تو چھتر چھایا ہے نہ نوازشوں کی بارش۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ موثر طور پر ابھی تک عالمی سطح پر اٹھایا ہی نہیں گیا۔ ظاہر ہے یہ کام سیاسی قیادت کے کرنے والاہے عسکری جنتا کا نہیں۔ دوسری جانب بُش انتظامیہ سے اوباما انتظامیہ تک بغیر کسی قانونی بنیاد و لیگل جواز کے ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی طور پر معروف قانون اور آئین کے ماہرین امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کرتے ہیں بلکہ تائید نہیں کئی حوالوں سے ہم سے بہتر اس کی وکالت بھی کرتے ہیں۔ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کا مقدمہ یہ ہے…!
امریکی انتظامیہ کی جانب سے ڈرون حملوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا جواز اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل51 میں ڈھونڈا جاتا ہے۔ جس کی رُو سے حفاظتِ خود اختیاری کا نظریہ تراشہ گیا۔ جبکہ اقوامِ متحدہ کے اسی چارٹر کے آرٹیکل 2 ذیلی آرٹیکل 4 میں قوت کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے۔کسٹمری انٹرنیشنل لا صرف مسلح حفاظتِ خود اختیاری میں ایکشن کو جائز قرار دیتا ہے۔ ان ساری قانونی صورتوں میں ضروری ہے کہ دو ملکوں کے درمیان اعلان شدہ جنگ یا تسلیم شدہ مسلح تصادم ہو رہا ہو۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کی ریاستوں کے ما بین نہ تو مسلح تصادم کی کوئی صورت ہے اور نہ ہی اعلان شدہ جنگ ہو رہی ہے۔اس لئے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا یو این چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے مطابق نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی کوئی اجازت۔
ڈرون حملوں کے جواز کے سب سے بڑے وکیل صدر اوباما کے سابق ایڈوائزر برائے کاؤنٹر ٹیررازم ڈائریکٹر سی آئی اے جون برنن ہیں۔ جن کے مطابق امریکہ کے ڈومیسٹک لا کے تحت ڈرون استعمال کرکے ٹارگٹ کلنگ کی اجازت ہے۔ جون برنن کے اس موقف کو اگرچہ 18 ستمبر2001ء میں امریکی کانگریس کی جانب سے ”AUMF“ قانون کی پشت پناہی ملتی ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکی وکلاء سمیت آئین وقانون کے اکثر ماہرین نے اسے کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔
اقوامِ متحدہ کے اسپیشل رپورٹر برائے ”ماورائے عدالت اور ماورائے قانون قتل“ مسٹر کرسٹو ہینز اُن بین الاقوامی قانون کے ماہرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے امریکی حکومت کے نظریہ ِ ٹارگٹ کلنگ پر کھل کر تنقید کی۔ اس تناظر میں بھی پاکستان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے کیونکہ اس کی سرزمین کو ڈرون کے یکطرفہ فضائی سروے کے بعد مسلح حملوں کی زد میں لانا کسی بھی طرح کے قانونی جواز سے محروم ہے۔
ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کے مقدمے میں انٹرنیشنل ہیومینیٹیرئین لا(International Humanitarian law )کا پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ بین الاقوامی تصادم کے نظریئے کے ایڈیشنل پروٹوکول نمبر 2 میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جس پر حملہ کیا جائے وہ منظم اور قابلِ شناخت گروپ ہو۔ اسی حوالے سے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراسICRCنے مارچ 2008ء میں ایک اوپینیئن پیپر جاری کیا جس میں درج ذیل قانونی رائے دی ”محض آئیڈیالوجی مشترک ہونا مختلف گروپوں کو نان انٹرنیشنل مسلح تصادم یعنی NIAC کے زمرے میں نہیں لا سکتا“۔
آج پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے بوجھل دل سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اگرچہ ڈرون حملوں کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ بیدار اور متحرک ہے مگر ہمارا دفترِ خارجہ داخلی سیاست کے جوہڑ میں ڈبکیاں کھا رہا ہے۔ اس کی کئی واضح مثالیں ہیں۔ جیسے 2012ء میں بین ایمرسن جو اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے تحفظ اور دستور اور بنیادی آزادیوں کے اسپیشل رپورٹر کے طور پر کام کر رہے تھے اُنہوں نے تکرار کے ساتھ یو این جنرل اسمبلی، انسانی حقوق کی کونسل اور ہائی کمشنر آفس آف ہیومن رائٹس کے ذریعے ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے آزاد تفتیش کا اعلان کیا مگر ڈرون حملوں کے متاثرہ فریق پاکستان کی جانب سے عدم دلچسپی کی وجہ سے بین ایمرسن کی کوششیں بے نتیجہ رہیں۔
ایمرسن نے اس سال جنوری میں یہ ارادہ بھی ظاہر کیاکہ وہ پاکستان، افغانستان، یمن، صومالیہ اور فلسطینی علاقوں میں پچیس ڈرون حملوں پر مشتمل تصویری، فرانزک اور گواہیوں کی روشنی میں تیار کی گئی اس تفتیش کو لیڈ کریں گے جسے اس سال اکتوبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے روبرو پیش کیا جائے گا۔ دُنیا کے سامنے اپنی خود مختاری، سا لمیت اور ڈرون حملوں سے پیدا شدہ مسائل پر مشتمل اپنا مقدمہ پیش کرنے کا پاکستان کو ایک اور نادر موقع مل رہا ہے۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ فاٹا کے عوام کے مسائل اور بھی ہیں۔ان کا پہلا مسئلہ قومی سطح کے اداروں میں فاٹا کی حقداری اور دادرسی کا نہ ہونا ہے۔مجھے وہ جنگ یاد ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ مجریہ 2010ء کے لئے اس وقت لڑی جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں فاٹا کا جج بٹھانے کا اعلان میں نے پارلیمینٹ کے فلور پر کیااور”اعظم آفریدی“ کو بٹھایا بھی۔ مگر آج دُکھ سے کہتا ہوں کہ فاٹا کا یہ منصف انصاف کے لئے خود انصاف کا مُدعی بن کر دربدر پھرتا ہے۔ فاٹا میں آئین، قانون ضابطہ اور ریگولیشن نہیں بلکہ ایف سی آر کا راج ہے ۔جو بڑوں کا تحفظ اور چھوٹوں کی قربانی کرتا ہے۔فاٹا کے اندر نہ عدالت ہے نہ وکیل، نہ پراسیکیوٹر نہ دلیل، نہ بیوروکریسی نہ حقِ حکمرانی۔ پاکستان کا یہ مقدمہ اگر آنے والی حکومت کسی بین الاقوامی فورم پر لڑنا چاہے تو میں اپنے خرچ پر لڑنے کو تیار ہوں۔ اگر پارلیمینٹ فاٹا کے مسئلے کے حل کے لئے آگے آئے یا کوئی حکومت تو میری نظر سیاست پر نہیں ریاست کے مفاد پر ہوگی۔ ہر ایسی کاوش پاکستان کو مزید مضبوط کرے گی۔
اس کی دوسری مثال اقوامِ متحدہ کے کئی دیگر نمائندوں کی جانب سے کھل کر یہ کہنا ہے کہ امریکی ڈرون حملے مسلح تصادم کے قانون کے ماتحت نہیں بلکہ ماورائے قانون ہیں، اس لئے ان کے خلاف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لاء(International Human Rights Law) حرکت میں آئے گا۔
پاکستان کے مقدمے میں بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون درجِ ذیل وجوہات کی بنا پر واضح طور پر لاگو ہوتا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ آزادی انسان کا عالمی حق ہے لیکن پاکستان کے وہ علاقے جہاں ڈرون حملے ہو رہے ہیں وہاں فضا میں خوفناک اور گمبھیر شور مچانے والے ڈرون انٹیلی جنس کے حصول کے لئے اکثر اُڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے علاقے کے معصوم بچوں اور گھروں تک محدود رہنے والی ماؤں اور ان کی نومولود اولادوں کے لئے نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کی دوسری وجہ کون نہیں جانتا…؟ کہ ڈرون حملوں کی زد میں غیر مسلح اور گھریلو بزرگ، خواتین ، بچے اور باراتی تک آچکے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو نہ کسی تصادمی گروپ میں شریک ہیں اور نہ ہی اُنہیں سیاسیاتِ عالم یا علاقائی شورشوں سے کوئی غرض ہے وہ بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔
تیسرے ، پاکستان کی سلامتی کے اداروں نے ایک سے زائد مرتبہ کھل کر موقف اپنایا کہ اس حوالے سے فیصلہ سازی کرنا منتخب پارلیمانوں اور ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا کام ہے کیونکہ آئینی طور پر مسلح افواج ریاستی اور حکومتی پالیسی کے نفاذ کی ذمہ دار ہیں پالیسی سازی کی نہیں۔ ڈرون مقامی بھی ہیں جیسے کل، بندگانِ شکم کے ایک صاحبِ اسرار سردار نے پوسٹ الیکشن صورتحال پر میرے موقف پر ارتداد کا فتویٰ جاری کیا ہے۔ ہجرت کے اس مسافر کا بحیثیت وزیرِ قانون جو ٹیلی فون میں نے سُنا وہ نمبر سمیت محفوظ ہے، جس میں بعد از ریٹائرمنٹ مکان کی تعمیر کے لئے پینتیس لکھیا نوحہ پڑھا گیا تھا۔ اقبال نے شکم کو سامانِ موت کہا اور صاحبانِ نقد کی اس پُراسرار تلوار نے دراصل پانچ سال کے لئے نئی نوکری کی تلاش کی درخواست ڈالی ہے۔ اس لئے میں وکالت نامے میں ایسے کسی معاشی فتوے پر بحث کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
کئی کٹ کھنے سار ق اللیل ہیں
صحافت ہے کولہو، تو یہ بیل ہیں
تازہ ترین