• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ انتخابات بلوچستان کا دل چسپ سیاسی منظر نامہ

الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی مُلک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی سیاسی گہماگہمی بڑھ گئی اور جوں جوں پولنگ کی تاریخ قریب آ رہی ہے، جوڑ توڑ میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے، اِس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اِس بار سینیٹ انتخابات غیر معمولی حالات میں منعقد ہو رہے ہیں۔ 3 مارچ کو بلوچستان اسمبلی کے ارکان 12 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔ جنرل نشستوں پر 7، خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی نشست پر دو، دو، جب کہ اقلیتی نشست کے لیے ایک رُکن کو منتخب کیا جائے گا، جو اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کی جگہ لیں گے۔ 

ایوانِ بالا سے ریٹائر ہونے والوں میں پاکستان مسلم لیگ(نون) کے آغا شاہ زیب درّانی، نیشنل پارٹی کے میر کبیر محمّد شہی، ڈاکٹر اشوک کمار، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے عثمان خان کاکڑ، گل بشریٰ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری، بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور خان کاکڑ، محمّد خالد بزنجو، نصرت شاہین، میر سرفراز بگٹی اور آزاد رُکن میر یوسف بادینی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔اِن میں سے کئی ایک مختلف سینیٹرز کی وفات کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے۔

ایک طرف سیاسی جماعتوں کے مابین روابط میں تیزی آئی ہے، تو دوسری طرف، ان جماعتوں کے اندرونی اختلافات بھی عروج پر ہیں۔اِس حوالے سے دھڑے بندیوں کی اطلاعات ہیں، جن کی کبھی تصدیق، تو کبھی تردید کی جاتی ہے۔ اِس وقت بلوچستان اسمبلی کے 65کے ایوان میں’’ بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کی قیادت میں قائم چھے جماعتی حکم ران اتحاد کے ارکان کی تعداد 41 ہے، جب کہ اپوزیشن کے پاس 24 نشستیں ہیں۔صوبائی الیکشن کمشنر، محمّد رازق کو ریٹرننگ افسر مقرّر کیا گیا۔ 

مجموعی طور پر 41 امیدواروں نے کاغذات نام زدگی جمع کروائے۔ 7جنرل نشستوں پر19، ٹیکنوکریٹ کی 2نشستوں کے لیے 8 ، خواتین کی 2نشستوں کے لیے 9اور ایک اقلیتی نشست کے لیے 5امیدواروں نے کاغذات نام زدگی جمع کروائے۔ جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر قابلِ ذکر امیدواروں میں قاسم رونجھو، عثمان خان کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، ساجد ترین ایڈووکیٹ، ارباب عُمر فاروق، منظور احمد کاکڑ،سرفراز بگٹی، سردار خان رند اور عبدالقادر شامل ہیں۔

سیاسی مبصّرین کے مطابق، بلوچستان میں سینیٹ انتخابات حسبِ سابق دل چسپ ہوں گے اور پولنگ سے پہلے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس کی جیت، کس کی ہار ہوگی۔اِس سسپنس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان ماضیٔ قریب تک سینیٹ انتخابات کے موقعے پر ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے بُری شہرت کا حامل رہا ہے۔ یہاں اِس بار سینیٹ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد ہونے جارہے ہیں، جب مرکز اور صوبے کے سیاسی منظرنامے میں غیر معمولی عدم مطابقت ہے، کیوں کہ مرکز میں اپوزیشن جماعتیں،’’ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں موجود ہیں، جس میں عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل ہے، جب کہ دوسری جانب، یہی عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان کی مخلوط حکومت کا حصّہ بھی ہے۔ 

بیک وقت حکومت اور اپوزیشن بینچز پر براجمان جماعتیں یہ توقّع بھی رکھتی ہیں کہ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں جو معاہدہ ہوا تھا، اب بھی اُسی کے مطابق اُنھیں حصّہ دیا جائے۔ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے بی این پی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی کام یابی کے لیے بی این پی کو اُس وقت بی این پی ( عوامی ) کی حمایت لینی پڑی تھی، اب بی این پی اپوزیشن، جب کہ بی این پی (عوامی)حکومتی اتحاد میں شامل ہے۔ 

علاوہ ازیں، اپوزیشن جماعتوں کی کوشش ہے کہ اے این پی کو بھی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مجبور کیا جائے، جس کے لیے پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین سرگرم ہوچُکے ہیں، مگر اے این پی کے لیے اِس بات کا فیصلہ قدرے مشکل ہوگا کہ وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ انتخابات لڑے، کیوں کہ وہ نہ صرف بلوچستان حکومت کا حصّہ ہے، بلکہ حکم ران اتحاد کی تیسری بڑی جماعت بھی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ، جام کمال کی قیادت میں قائم حکومت، چھے جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی اِس اتحاد کی سربراہی کر رہی ہے، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی ( عوامی ) اور جمہوری وطن پارٹی اِس اتحاد کا حصّہ ہیں۔

اگر اپوزیشن بینچز کی بات کی جائے، تو65کے ایوان میں 11نشستوں کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام پہلے نمبر پر ہے، جب کہ دوسری بڑی جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی ہے، جس کے اراکان کی تعداد 10 ہے۔ نیز، اپوزیشن میں شامل پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ(نون) کے پاس ایک، ایک نشست ہے، جب کہ ایک نشست آزاد رُکن، نواب محمّد اسلم رئیسانی کی ہے۔گو کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں انتہائی سینئر پارلیمینٹیرینز شامل ہیں، تاہم یہ بلوچستان اسمبلی کی سب سے نئی جماعت ہے، جس کی سربراہی خود وزیرِ اعلیٰ، جام کمال کر رہے ہیں۔ 25جولائی2018ء کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آیا، تو عوامی نیشنل پارٹی نے یہ کہتے ہوئے جے یو آئی اور بی این پی کی بجائے اپنا وزن بی اے پی کے پلڑے میں ڈال دیا کہ’’ وہ صوبے کے پشتون اور بلوچ عوام کے مفادات کی تکمیل اور مسائل کے حل کے لیے بی اے پی اور پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت کا حصّہ بن رہی ہے۔‘‘ 

ابتدائی چند ماہ تو معاملات ٹھیک چلتے رہے اور اس دَوران عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب عُمر فاروق کاسی کو وزیرِ اعلیٰ کا معاونِ خصوصی بنایا گیا، جب کہ اس کے حصّے میں دو وزارتیں بھی آئیں۔ بعد ازاں، کابینہ میں متعدّد بار ردّ وبدل کرتے ہوئے بی اے پی، پی ٹی آئی اور بی این پی ( عوامی ) کی وزارتوں میں تو تبدیلیاں کی گئیں، لیکن اے این پی کی وزارتوں کو نہیں چھیڑا گیا۔ تاہم، حکم ران جماعت اور اے این پی میں پہلی بار اُس وقت اختلافات سامنے آئے، جب وزیرِ اعلیٰ نے کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ کی لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔

اے این پی کی جانب سے اِس اقدام کے خلاف صوبائی اسمبلی میں قرار داد منظور کروائی گئی اور پارلیمانی لیڈر، اصغر خان اچکزئی کی قیادت میں وفد نے جام کمال سے ملاقات کرکے لیویز نظام کی بحالی اور پشتون اضلاع میں نئے ڈویژنز، اضلاع کے قیام کا مطالبہ کیا۔جام حکومت نے لیویز کے حوالے سے تو فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا، تاہم پشتون اضلاع میں نئے ڈویژنز اور اضلاع کے قیام کے ضمن میں وزیرِ اعلیٰ نے قلعہ عبداللہ کے دورے کے موقعے پر اعلان کیا کہ کوئٹہ ڈویژن توڑ کر ضلع پشین اور ضلع قلعہ عبداللہ پر مشتمل نیا ڈویژن قائم کیا جائے گا۔ 

اِسی طرح پشتون بیلٹ میں نئے اضلاع کے قیام کے بارے میں بھی کافی پیش رفت ہوئی۔ بلوچستان حکومت کے ذرائع کے مطابق، اے این پی کے مطالبے اور وزیرِ اعلیٰ کے اعلان کے بعد نئے ڈویژنز اور اضلاع کے قیام کے حوالے سے کام شروع کردیا گیا ہے تاکہ پشین کو کوئٹہ سے الگ کرکے پشین کے نام سے نیا ڈویژن قائم کیا جائے، جس میں پشین کی دو تحصیلیں، خانوزئی اور کاریزات الگ اضلاع کے طور پر شامل ہوں گی۔ اِسی طرح قلعہ عبداللہ کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے اور ژوب ڈویژن کو توڑ کر ژوب اور لورالائی کے نام سے دو ڈویژنز کے قیام پر بھی پیش رفت شروع ہوئی، مگر بعد میں نامعلوم وجوہ کی بناء پر یہ کام التواء کا شکار ہوگیا۔

اس دَوران مسلسل کئی مہینوں تک پاک افغان سرحد کی بندش، وہاں پیش آنے والے پُرتشدّد واقعات اور پشتون اضلاع پر مشتمل نئے ڈویژن اور اضلاع کے قیام کے حوالے سے عملی پیش رفت نہ ہونے پر اے این پی حکم ران اتحاد سے دُور، دُور رہنے لگی ۔ تاہم، پی ڈی ایم کا حصّہ ہونے اور گلے شکوؤں کے باوجود اے این پی اب بھی بلوچستان حکومت کا حصّہ ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر، اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ”’ہم نے سینیٹ کے گزشتہ انتخاب میں بلوچستان عوامی پارٹی کو چار ووٹ دیئے تھے اور اُس کے بدلے میں موجودہ انتخابات میں ہمارے ایک امیدوار کو کام یاب کروانے کا وعدہ کیا گیا۔“مبصّرین کے مطابق، اگر اے این پی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ الیکشن میں حصّہ لیتی ہے، تو اس صورت میں اپوزیشن جماعتیں بلوچستان سے پانچ نشستوں پر آسانی سے کام یابی حاصل کرسکتی ہیں۔

کئی جماعتوں میں ٹکٹس کی تقسیم کے معاملے پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں، جن کے پیشِ نظر واضح اعدادوشمار کے باوجود جماعتوں کی ممکنہ کام یابی کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔مین اسٹریم میڈیا میں پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا تو کافی چرچا ہوا، تاہم پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں میں بھی اختلافی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے، تو اس نے جب عبدالقادر نامی معروف کاروباری شخصیت کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا، تو صوبائی رہنماؤں نے نہ صرف پارٹی کے اندرونی فورمز پر صدائے احتجاج بلند کی، بلکہ باقاعدہ پریس کانفرنس بھی کر ڈالی، جس کے بعد مرکزی قیادت نے عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو دے دیا۔ 

پی ٹی آئی کے کارکنوں اور صوبائی قائدین کا اعتراض یہ تھا کہ عبدالقادر کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہے، تاہم اُنھوں نے کاغذات نام زَدگی جمع کروانے کے موقعے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی پیدائش کوئٹہ کی ہے اور تعلیم بھی یہیں حاصل کی۔یوں ٹکٹ کی واپسی پر عبدالقادر نے پہلے آزاد حیثیت سے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا، پھر وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے خبریں آئیں کہ اُنھیں حکم ران جماعت کی جانب سے ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔

عبدالقادر کی طرح ستارہ ایاز بھی تنازعات کی لپیٹ میں ہیں۔وہ 2015ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر خیبر پختون خوا سے ایوانِ بالا کی رُکن بنیں۔ 2019ء میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اُنہیں پارٹی سے نکال دیا گیا، جس کے بعد اُنہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور بی اے پی سے ٹکٹ بھی حاصل کرلیا۔ سیاسی حلقوں میں اِن دنوں” پیرا شوٹرز “ جیسے’’ خطابات‘‘ کی خاصی گونج ہے۔ 

یہ الفاظ ایسے افراد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن کا واحد ہدف سینیٹ ٹکٹ کا حصول ہے۔ ” پیرا شوٹرز “ ایوانِ بالا تک پہنچنے میں کام یاب ہوں گے یا نہیں؟ اِس حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا اور بلوچستان کے تناظر میں تو کسی بھی طرح کی پیش گوئی تقریباً ناممکن ہے۔

تازہ ترین