اردو ادب اور صحافت کے فروغ میں خواتین نے جو اہم کردار ادا کیا ہے بالعموم اس کا ذکر نہیں ہوتا حالانکہ خواتین نے اٹھارھویں صدی ہی سے اردو ادب میں نمایاں کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا اور انیسویں صدی میں خواتین اردو صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھ چکی تھیں۔
خواتین قلم کاروں کا باقاعدہ ذکر سب سے پہلے جس تذکرے میں ملتا ہے اس کا نام ’’بہارستان ِ ناز‘‘ ہے جو حکیم فصیح الدین رنج میرٹھی (۱۸۸۵ء۔۱۸۳۶ء) نے مرتب کیا تھا۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۸۶۴ء میں شائع ہوا اور اس میںستر (۷۰) شاعرات کا ذکر اوران کے کلام کے نمونے تھے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۸۶۹ء اور تیسرا ایڈیشن ۱۸۸۲ء میں شائع ہوا۔ تیسرے ایڈیشن میں ایک سو چوہتر (۱۷۴) شاعرات کا ذکر تھا۔ لیکن اٹھارھویں اور انیسویں صدی میںشاعرات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ اس زمانے میں بعض خواتین اپنی تخلیقات کو منظر ِ عام پر لانا پسند نہیں کرتی تھیں اور شاعرات کی بہت بڑی تعداد نے گم نام رہنے ہی کو ترجیح دی ہوگی۔بلکہ بیسویں صدی کے اوائل میں بھی بہت سی شاعرات نے پس ِ پردہ رہنے ہی کو بہتر سمجھا ۔ کچھ خواتین اہل قلم فرضی ناموں سے یا مردانہ ناموں سے بھی لکھتی رہیں۔ کچھ نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے یا والد کے ساتھ اپنارشتہ ظاہر کیا ، مثلاً بنت نذر الباقر یا والدہ عبدالقادرنے اپنا اصل نام نہیں لکھا ۔کچھ نے اپنے نام کا صرف مخفف ہی لکھا ۔ زاہدہ خاتون شیروانیہ (۱۹۲۲ء۔۱۸۹۴ء) جیسی بے مثل شاعرہ بھی ز۔خ۔ش کے قلمی نام سے شاعری کرتی رہیں۔
بہارستان ِ ناز سے قبل اردو شاعری کے تذکروں میں چند خواتین شعرا کا محض سرسری ذکر ہوتا تھا حالانکہ خواتین طویل عرصے سے اردو اور فارسی میں شاعری کرتی رہی تھیں۔ البتہ بہارستان ِ ناز سے یہ ضرور ہوا کہ دیگر اہل علم کو بھی شاعرات کا تذکرہ لکھنے کی تحریک ہوئی اوران تذکروں میں درگا پرشاد نادر کے لکھے ہوئے تذکرے بطور ِخاص قابل ِ ذکر ہیں۔ درگا پرشاد نادر نے ۱۸۷۶ء میں فارسی میں شاعری کرنے والی خواتین کا ایک مختصر تذکرہ شائع کروایا جس کا نام’’ گلشنِ ناز ‘‘تھا ۔ انھوں نے ۱۸۷۸ء میں ’’چمن انداز ‘‘ کے نام سے ایک اور تذکرہ شائع کیا جس میں اردو اور فارسی کی شاعرات کا ذکر تھا ۔نادر نے ۱۸۸۴ء میں’’ تذکرۃ النساے نادری ‘‘شائع کیا جس میں اردو اور فارسی کی شاعرات کا نسبۃ ً تفصیلی ذکر تھا ۔یہ کتابیں اب مشکل ہی سے دست یاب ہوتی ہیں۔البتہ فصیح الدین رنج میرٹھی کی ’’بہارستان ِ ناز ‘‘کو خلیل الرحمٰن دائودی نے مرتب کردیا تھا اور مجلس ترقیٔ ادب (لاہور) سے ۱۹۶۵ء میں دوبارہ شائع ہوئی۔
شاعری اور نثر سے قطع نظر، خواتین کے رسالے بھی اردو میں خاصے عرصے سے شائع ہورہے ہیں اور خواتین خود ان کی مدیر بھی رہی ہیں۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے ’’اردو میں جرائد ِ نسواں کی تاریخ ‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں خواتین کے اردو جرائد کا تفصیلی حال رقم کیا ہے۔اس میں انھوں نے خواتین کے اردو رسائل کی تاریخ بیان کرتے ہوئے تقریباً ڈھائی سو رسالوں کا ذکر کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’رفیق ِ نسواں ‘‘ وہ پہلا اردو رسالہ تھا جو خواتین کے لیے جاری کیا گیا ۔ لکھنؤ سے ۵؍ مارچ ۱۸۸۴ء کو جاری کیا گیا یہ رسالہ پندرہ روزہ تھا اور اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔ ’’فرہنگ ِ آصفیہ ‘‘ کے مولف مولوی سید احمد دہلوی نے دہلی سے یکم اگست ۱۸۸۴ء کو ایک پندرہ روزہ جریدہ خواتین کے لیے جاری کیا جس کا نام ’’اخبار النسا‘‘ تھا۔ حیدرآباد دکن سے ۱۸۹۴ء میں ’’معلم ِ نسواں ‘‘ نکلا۔ لیکن دراصل اس کا نام پہلے ’’معلم ‘‘ تھا اور یہ ۱۸۸۱ء میں جاری ہوا تھا ۔ یہ بعد میں خواتین کا رسالہ بن گیا۔
خواتین کے رسالوں کواُس زمانے کے لوگوں نے معیوب جانا اور لوگوں کا ابتدائی ردعمل حوصلہ شکن تھا۔ لیکن اہل قلم اور اہل علم نے حوصلہ نہیں ہارا اور خواتین کی بہتر تربیت اور تعلیم کے لیے خواتین کے مزید رسالے اردو میں جاری کیے گئے جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں :
شریف بیبیاں، لاہور، ۱۸۹۳ء۔
تہذیب ِ نسواں، لاہور، ۱۸۹۸ء۔
پردۂ عصمت ،لکھنؤ ، ۱۹۰۰ء ۔
سفیر ِ ِقیصر، میرٹھ ، ۱۹۰۰ء۔
جلباب ِ ناموس ، لکھنؤ، ۱۹۰۱ء۔
شمس النہار ، دہلی، ۱۹۰۲ء۔
خاتون ،علی گڑھ، ۱۹۰۴ء۔
دارالاشاعت پنجاب کے مالک مولوی سید ممتاز علی کی اہلیہ اور سید امتیاز علی تاج کی والدہ یعنی محمدی بیگم کو یہ اعزازحاصل ہے کہ وہ خواتین کے کسی اردو رسالے کی پہلی خاتون مدیر تھیں۔ وہ تہذیب ِ نسواں کی ادارت کرتی تھیں جو ان کے شوہر کے ادارے سے شائع ہوتا تھا۔اس سے پہلے مرد ہی خواتین کے رسالے کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ بیگم ممتاز علی نامی خاتون خواتین کے ایک رسالے ’’مشیر ِ مادر‘‘ کی مدیرہ تھیں جولاہور سے ۱۹۰۵ء میں نکلا تھا۔ آگرہ سے خواتین کا ایک پرچہ ’’پردہ نشین‘‘ کے نام سے جاری ہوا تھا جس کی مدیرہ مسز خاموش تھیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ قلمی نام تھا ۔خواتین کے ان رسالوں اور ان خاتون مدیروں نے برعظیم پاک و ہند میں خواتین میں تعلیم اور شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر جمیل اختر کی تحقیق ہے کہ آزادی سے قبل اردو میں خواتین کے تقریباً ایک سو رسائل و جرائد کا سراغ ملتا ہے اور آزادی کے بعد اب تک تقریباً ڈیڑھ سو اردو کے ایسے رسالے جاری ہوئے ہیں جو خواتین کے لیے ہیں۔ لیکن آزادی کے بعد ہندوستان سے خواتین کے لیے صرف چالیس کے قریب اردو رسالے نکلے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد ایک سو سے اوپر ہے۔ اس طرح کل تعداد ڈھائی سو ہوجاتی ہے۔