ماضی کی طرح موجودہ سپریم کورٹ بھی فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے جبکہ عدالتی دائرہ کار سے متعلق فقید المثال واقعات رونما ہورہے ہیں : سپریم کورٹ کے چوتھے سب سے سینئر جج صاحب ذاتی حیثیت میں بطور مدعی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی ہی عدالت کے سامنے پیش ہورہے ہیں، جج حضرات کی ذاتی گفتگو اور اُن کے درمیان ہونے والی خط وکتابت منظر عام پر لائی جارہی ہے اور عدالتی فیصلے تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان اور اُن کے ساتھی جج صاحبان کو ایک حاضر سروس سینئر جج صاحب کی طرف سے غیر معمولی ذاتی اور قانونی حملوں کا سامنا ہے، اور چیف جسٹس آف پاکستان کے بنچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار پر عدالتی حکم نامے کے ذریعے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں دکھائی دینے والی حالیہ کشمکش کی کیا وجوہ ہیں : کیا یہ شخصیات کا ٹکرائو ہے یا ذاتی انا کی کارفرمائی؟ یا کیا یہ اچھے اور برے ججوں کے درمیان لڑائی ہے؟ وہ جج جو آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں اور وہ جج جو ایگزیکٹو کی منشا پر چلتے ہیں؟ ۔
ساختی اور آئینی متناقضہ: اس کشمکش کی وجہ وہ ساختی اور آئینی متناقضہ ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی فعالیت اور ساخت کو آزادی اور انحصار کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ ریاست پاکستان کا ایک حصہ ہے اور ایگزیکٹو اور قانون ساز ادارے کے تعلقات پر اپنا وجود رکھتی ہے، جیسا کہ الیگزنڈر ہمیلٹن نے ’’فیڈرلسٹ پیپرز نمبر 78‘‘ میں اس انحصار کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کے پاس صرف فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ لیکن اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے اسے ایگزیکٹو کا بازو چاہیے ۔‘‘ گویاسپریم کورٹ کے پاس آزاد ذرائع نہیں ہیں جن سے وہ اپنے ادارے کے لیے مالی وسائل کا انتظام کرسکے اور نہ ہی اس کے پاس اپنے فیصلوں کے لیے قوت ِ نافذہ ہے۔ اس کی واحد طاقت اس کے فیصلوں کا نظریاتی اور آئینی جواز ہے۔ مزید یہ کہ کسی بھی فعال آئینی ریاست کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ ایگزیکٹواور قانون ساز کے ساتھ ہم آہنگی، نہ کہ مستقل کشمکش، رکھے۔ انحصار کے تعلق کی وجہ سے ہم ایسے جج صاحبان کو دیکھتے ہیں جو ایگزیکٹو اور قانون ساز اداروں سے کشمکش سے گریز کرتے ہیں۔ اس سے تاثر ابھرتا ہے کہ شاید وہ حکومت کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آئین سپریم کورٹ کو پابند کرتا ہے کہ وہ ایگزیکٹو اور قانون ساز اداروں کا آئینی اور قانونی طور پر مواخذہ کرے ۔مزید برآں، سپریم کورٹ کی آئینی ذمہ داری شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے کیوںکہ ریاست شہریوں کے حقوق پامال کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کی اس آزادی کی وجہ سے ہمارے سامنے ایسے جج صاحبان بھی ہیں جن کی ایگزیکٹو اور قانون سازاداروں سے کشمکش کا تاثر ابھرتا ہے۔ دکھائی دیتا ہے کہ وہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مخالف فیصلے دے رہے ہیں۔
تاریخی حوالہ: سپریم کورٹ آف پاکستان کی تاریخ آزادی اور انحصار کے ساختی اور آئینی متناقضہ کو متوازن رکھنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ عدالت ریاست ِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنی آزادی برقرار رکھتی ہے۔ وکلا تحریک (2007-2009) اس متناقضہ کو حل کرنے کی تاریخی پیش رفت سمجھی گئی۔ معزول شدہ جج صاحبان کی بحالی ایگزیکٹو اور قانون سازادارے کی مرضی سے نہیں بلکہ عوامی تحریک کے نتیجے میں ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کی طاقت (تلوار اور پرس) پر انحصار کے مقابلے پر عوامی حمایت نے عدالت کو ایگزیکٹوا ور قانون ساز ادارے کے مقابلے میں طاقت دی۔لیکن وکلا تحریک سے پیدا ہونے والی ایک اضافی الجھن یہ تھی کہ اس نے مختلف قسم کی جوڈیشل فعالیت کوفروغ دیا۔ پہلی فعالیت روایتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جج حضرات جوعدالتی اور سماجی اصلاحات کے چکر میں نہیں پڑتے، وہ اس نئی طاقت سے بطور جج اپنے کیرئیر کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری فعالیت اصلاحی ہے۔ جج صاحبان نے دیکھا کہ عوامی پذیرائی کو برقرار رکھنے کے لیے عدالتی اور سماجی اصلاحات ضروری ہیں، لیکن اُنہوںنے اس دوران ریاست کے دیگر عناصر کے ساتھ غیر ضروری ٹکرائو سے گریز کیا۔ تیسری، انتہائی طرز عمل دیکھنے میں آیا۔کچھ جج حضرات کا خیال تھا کہ عوامی پذیرائی کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی جوڈیشل اور سماجی اصلاحات نافذ کی جانی چاہئیں، چاہے اس کے جو بھی نتائج ہوں ۔یہ ہے وہ تاریخی حوالہ جس نے سپریم کورٹ میں حالیہ کشمکش کو ابھارا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان منقسم ہیں۔ اُن کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی فعالی اساس بننے والی انحصاری اور آزادی کے متناقضہ سے نمٹنے کے لیے کس جہت کو اختیار کریں : کیا قانونی، یا اصلاحی، یا انتہائی؟ ۔دراصل یہ وہ نظریاتی کشمکش ہے کہ بڑھتی ہوئی عوامی توقعات کے دور میں دراصل سپریم کورٹ کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ کیا یہ کشمکش خطرناک ہے؟ دراصل جوڈیشل اصلاحات کے باب میں کشمکش ایک محرک کا کام دیتی ہے۔ دوسری طرف ہم آہنگی اس ذیل میں سکوت کا پتہ دیتی ہے۔ لیکن خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب جج حضرات ایک دوسرے کی نیت پر شک کرتے ہیں اور بطور ادارہ کام کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس طرح یہ کشمکش خرابی پیدا کرتی ہے اور پھر ادارے کی تباہی سرپر منڈلانے لگتی ہے۔
(صاحب ِمضمون سپریم کورٹ کے وکیل ہیں)