قرسم فاطمہ
پاک ہے، وہ ذات جو اپنے بندۂ خاص کو لے گیا رات میں مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک، وہ مسجد جس کے اردگرد ہم نے برکت فرمادی ،تاکہ ہم اسے دکھائیں اپنی نشانیاں۔ (سورۃ اِلاسراء)
پاک ہے، وہ ذات جو خالقِ حقیقی بھی ہے اور مالکِ کونین بھی۔ جو نبیوں کو مبعوث فرماتا ہے تو ایسے ایسے عظیم معجزات سے نوازتا ہے کہ انسانی عقل بے اختیار اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔پاک ہے ،وہ ربِ اعلیٰ جو کسی کے لیے وقت روک دیتا ہے تو کسی کے لیے وقت صرف اس لیے پلٹ دیتا ہے کہ نماز قضا نہ ہو۔ وہ رب جو چالیس روز تک اپنے بندے کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھتا ہے تو کبھی کسی کو سو سال سونے کے بعد بھی حیات عطا فرما دیتا ہے۔کسی سے کلام کرنے کے لیے وہ کبھی کوہِ طور کا انتخاب کرتا ہے تو کبھی عرشِ بریں کا۔اللہ رب العزت ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ دن رات، صبح و شام،ماہ و سال،زماں و مکاں اور حدود و قیود سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔اللہ رب العزت نے اپنے حبیب و محبوب نبیﷺ کے دیدار کے لیے آپ کو عرشِ بریں پر مہمان بنا کر روئے زمین پر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو دنگ کردیا۔ یہ کائنات میں ایسا عظیم معجزہ ہے کہ انسانی عقل مکمل طور پر دنگ رہ جاتی ہے، غرض عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ جب جب اس معجزے پر غور و فکر کرتے ہیں تو بے اختیار اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔
اسلامی روایات کے مطابق معراج کا واقعہ رسول کریم ﷺ کی مکی زندگی کے آخری ایام میں آپﷺ کی مدینہ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل قمری سال کے ساتویں مہینے یعنی رجب المرجب کی ستائیس تاریخ کو رونما ہوا۔آپ ﷺ کا سفر وجدانی کیفیت کا ایسا عملی نمونہ ہے جس میں انسان ایک لمحے میں ہزاروں لاکھوں برسوں تک زندہ و جاوید رہ سکتا ہے، لمحے سمٹ گئے۔وقت روک دیا گیا۔
سرِلامکاں سے طلب ہوئی۔جبرائیلِ امین ؑکو حکم صادر کیا گیا۔چشم زدن میں عالمِ بالا کا نقشہ بدل دیا گیا۔حکمِ ربی ہوا:اےجبرائیلؑ! اپنے ساتھ ستّر ہزار فرشتے لے جائیے اور میرے محبوب ﷺکو عرش پر لے آئیں! ستائیس رجب المرجب کو براق کا انتخاب کیا گیا جس کی رفتار بجلی کی رفتار سے دُگنی تھی۔شبِ ستائیس، پُرکیف رات تھی۔فضاؤں میں عجیب سی مستی طاری تھی۔ہوا سُرعت میں چل رہی تھی۔
رات کیف و نشاط میں ڈوب رہی تھی۔ پوری کائنات پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری تھا۔نصف شب گزرچکی تھی ،جب عالمِ بالا سے روح الامین انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹتے فرشتوں کی فوج کے ہمراہ آسمان کی بلندیوں سے اتر کر شمس الضحیٰ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتے ہیں اور حضوراکرم ﷺکا سینۂ مبارک چاک کرکے دل کو آبِ زم زم سے دھوتے ہیں۔
اس حوالے سے آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:"میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔اس کے بعد میرے قلب کو دھویا گیا، پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا اور قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔(بخاری شریف،جلد اول)
سینۂ اقدس چاک کیے جانے کا مقصد قلبِ اطہر میں ایسی قوتِ قُدسیہ شامل کرنا تھا کہ عالمِ سماوات اور دیدارِ الٰہی میں دشواری پیش نہ آئے۔اس کے بعد آپ ﷺکے سر مبارک پر عمامہ شریف باندھا گیا۔ نور سے مزین ایک چادر پہنائی گئی۔زمرد کی نعلین مبارک اور یاقوت کا کمربند باندھا گیا اور بلندیوں کے صدر نشین حضورﷺبراق پر تشریف فرما ہوگئے۔ (معارج النبوہ،ص ۴۰۱)
زمین سے عرش کے سفرِ نور کے دوران فرش پر وقت روک دیا گیا۔عرش پر ملائکہ و انبیاء صف بہ صف استقبال کے لیے جمع تھے۔مرحبا یا رسول اللہ ﷺکی پُر لطف گونج میں عرش جھوم رہا تھا۔امامُ القبلتین ﷺ انتہائی شان و شوکت سے ملائکہ کے ہمراہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔اس گھڑی لمحے ساکت ہوچکے تھے۔مکاں سے لامکاں،فرش تا عرش، شرق تا غرب نور ہی نور پھیلا تھا۔ سواری بھی نور کی تو سوار بھی نور علیٰ نور۔
باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور۔میزبان بھی نور تو مہمانِ اعظم بھی نور کا پیکر۔خالق بھی نور تو محبوب بھی نور۔! نوری مسافر فلک بوس پہاڑوں،چٹیل میدانوں،سرسبز و شاداب وادیوں پر سفر کرتے وادئ بطحا پہنچتے ہیں جو کھجور کے بیش بہا درختوں سے مزّین تھا۔ اس کے بعد بیت المقدس کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں حور و غلماں،انبیاء و مرسلین سلامی کےلیے صف بہ صف کھڑے تھے۔آپ مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں، جہاں جبرائیلِ امینؑ اذان دیتے ہیں۔خاتم النبیین،امام المرسلین محمد مصطفیٰ ﷺامامت کےلیے تشریف فرماں ہوتے ہیں۔انبیاء و ملائکہ آپ کی تکریم میں سرِ تسلیمِ خم کرتے ہیں۔بیت المقدس میں روح پرور سماں طاری تھا۔
نماز کےبعد رفعتوں کا سفر ایک بار پھر شروع ہوتا ہے۔ حضور ﷺملائکہ کے جُھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ آپ ﷺکو جنت کی سیر کروائی گئی اور سدرۃ المنتہیٰ پر لے جایا گیا۔اس بیری کے درخت کے حسن و جمال کی تعریف مخلوق کی قوت سے بالاتر ہے۔ ایک روایت کےمطابق واپسی پر آپ ﷺ کے پاس تین برتن لائے گئے۔ ایک برتن میں دودھ،ایک میں شراب اور ایک میں پانی تھا۔ آپ ﷺ نے دودھ کا برتن لے لیا اور اس میں سے پیا جو راہِ راست اور درمیانی راہ کی علامت ہے۔ (الشفاء از ابو الفضل قاضی عیاض،:۱۵۹)
اس سے آگے مقام پر جبرائیلِ امین ؑکے قدم رُک گئے اور عرض کرنے لگے: ہم سب کے لیے ایک جگہ مقرر ہے یارسول اللہﷺ! اگر ایک قدم بھی آگے بڑھے تو اللہ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر راکھ کردیں گے۔یہ میرے مقام کی انتہا ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی شان یہ ہے کہ جہاں جبرائیل امینؑ کی حد ختم ہے، وہاں آپﷺ کی پرواز کی ابتداء ہے۔ حضوراکرم ﷺجب عرشِ بریں کے قریب پہنچے تو تمام حجابات اٹھادیے گئے۔ آپ ﷺ کو غیر مرئی ذات کے پردے دکھائی دینے لگے اور آپ کون و مکاں، سمت، عقل و استدلال، عرش و فرش کی حدوں کو پار کرگئے۔
واقعۂ معراج ایک طرف عالمِ انسانیت کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتا ہے تو دوسری طرف امتِ مسلمہ کے لیے عظیم ترین فضیلت کی رات ہے۔ یہی وہ عظیم الشان رات تھی،جب تمام امتِ محمدیہ ﷺ کو بخش دیا گیا تھا۔ اس رات اللہ اپنے بندوں کی حاجات و مناجات کو خاص طور پر قبولیت کا شرف عطا فرماتا ہے اور اللہ نے رجب المرجب کے مبارک مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا۔اسراء اور معراجِ مصطفیٰ ﷺ نے انسانیت کو ایک نیا موڑ عطا کیا جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو مزید وسعت حاصل ہوئی۔ اسی نسبت سے سفرِ معراج کو حضور ﷺ کے تمام معجزوں پر امتیازی حیثیت حاصل ہے۔