• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

13مارچ1993ء کی شب جب لاہور کے ایک ہسپتال میں حبیب جالب صاحب نے زندگی کی آخری ساعتیں مکمل کیں اور پینسٹھ برس کی عمر میں اپنا رختِ سفر باندھا تو شعرو ادب کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو اس بات کا تو پورا یقین تھا کہ ان کے ساتھ اُن کی شاعری کی بازگشت ختم نہیںہوجائے گی اور آنے والے زمانوں میں جدوجہدآزما ہمارے لوگ اُن کی احتجاجی شاعری سے قوت حاصل کرتے رہیں گے۔ظاہر ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود ہماری ادبی تاریخ کے پہلے عوامی شاعر، نظیر اکبر آبادی زندہ تھے اور زندہ ہیں۔اور بھی وہ لوگ جنہوں نے خواص کے بجائے عوام کے لیے لکھا، کم از کم عوام کے ادبی شعور نے ان کو لوحِ ذہن پر زندہ رکھا۔

حبیب جالب صاحب کے بارے میں بھی یقین تھا کہ وہ اپنی شاعری کے حوالے سے لوگوں کے دلوں اور ذہنوںمیں زندہ رہیں گے۔اس سب کے باوجود یہ بات شایدکسی کے ذہن میں نہیں تھی کہ انتقال کے پچیس تیس سال بعد اُن کی نظمیں پاکستان کی سرحدوں سے آگے بھی نکل چکی ہوں گی اور اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اُن کی بازگشت ہندوستان میں بھی سنی جارہی ہوگی۔

پچھلے کوئی ایک ڈیڑھ سال سے فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی باغیانہ نظمیں ہندوستان کے عوامی مظاہروں میںاور کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا کے اجتماعات میں اُسی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جارہی ہیں جس طرح وہ پاکستان میں اس پورے عرصے میں پڑھی جاتی رہیں۔

چنانچہ فیض صاحب کی ’’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘اور جالب صاحب کی نظم ’’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘‘ہندوستان کی فضائوں میں ارتعاش پھیلائے ہوئے ہیں۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زندہ لفظ کس طرح زمین و زماں کی حدوں کو پھلانگتے اور چہار سو پھیلتے چلے جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ حبیب جالب صاحب کی شاعری کو یہ قبولیت کیوں حاصل رہی ہے؟ 

بجا کہ وہ احتجاجی شاعری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور اُن کو زندگی ہی میں غیر معمولی قبولیت حاصل ہوگئی تھی، لیکن بات صرف اتنی نہیں تھی۔جہاں تک احتجاجی شاعری کا تعلق ہے، یہ تو ایک دائمی حیثیت کی حامل ہے ہی۔ بلوچستان کے معروف ادیب اور دانشور عبد اللہ جان جمالدینی صاحب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ادب تو ہوتا ہی احتجاجی ہے۔ایک سچا ادیب نہ تو جبر کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور نہ ہی اپنے آس پاس کی بے بضاعتیوں پر خاموش رہ سکتا ہے۔

سو دنیا کے ہر قابلِ ذکر قلم کار اور تخلیق کار کی تحریر کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی پیرائے میں عدم اطمینان اور ناپسندیدگی ہی کا اظہار کررہی ہوتی ہے۔یہ عدم اطمینان خارجی دنیا کے حوالے سے بھی ہوتا ہے اور انسان کے داخلی کرب کی صورت میں بھی اظہار پاتا ہے۔

احتجاج اور مزاحمت دراصل اسی ناپسندیدگی، اندرونی کسک اور اطاعت و اقرار سے انکار کے بلند آہنگ اظہار کا نام ہے۔جالب صاحب اسی بلند آہنگ باغیانہ شاعری سے اپنی پہچان پاتے ہیں۔یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن دو ایسی باتیں ہیں جو حبیب جالب کی بلند آہنگ احتجاجی اور مزاحمتی شاعری کو، دیگر احتجاج آمادہ شاعروں کے کلام سے متمیّز کرتی ہیں۔پہلی تو یہ کہ وہ پاکستان میں ایک ایسی مزاحمتی شاعری کا استعارہ بن گئے جو وقف ہی عوام کے لیے تھی۔اُن کا تخاطب عوام سے تھا، انہوں نے ترجمانی بھی عوام کے جذبات اور احساسات کی کی، اور پھر ایسا کرتے وقت انہوں نے شاعری کے فنّی لوازم کو بھی بڑی حد تک ملحوظ رکھا۔

چنانچہ اُن کے احتجاج کی ایک ادبی شان بھی ہے، اُن کے یہاں حد درجہ غنائیت موجود تھی، وہ الفاظ اور تراکیب کی نشست و برخواست کا بھی خیال رکھتے تھے۔ہندوستان کے ایک مشاعرے میں فراق گورکھپوری جیسے غزل کے استاد نے مائیک پر آکر جالب صاحب کے بارے میں یہ الفاظ کہے _’’میرا بائی کا سوز اور سورداس کا نغمہ یکجا ہوجاتے ہیں تو اسے حبیب جالب کہتے ہیں‘‘۔یہ ضرور ہے کہ بعض مواقع پر جبکہ سیاسی تلاطم زوروں پر تھا، یا ملک میں جاری سیاسی آویزش تلخی کی آخری حدوں کو چھورہی تھی، وہ اشعار، اور نظمیں بھی اُن کے نوکِ قلم پر آئیں جن کا ہنگامی رنگ و آہنگ، شعری جمالیات کو پیچھے چھوڑتا محسوس ہوا۔

مثلاً اُن کی نظمیں، ’’ سُن بھئی اکبر بگٹی، بات کہوں میں ٹھُکتی‘‘، یا ’’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘، ہنگامی شاعری کی ذیل میں آئیں گی۔ یہ نظمیںجلسوں میں پڑھی گئیں اور ان سے لطف بھی لیا گیا مگر تھیں یہ احتجاجی شاعری کی ہنگامی اور ہنگامہ پرور جہت ہی کی نمائندہ۔خود حبیب جالب صاحب کو اس کا احساس تھا۔زمانۂ طالبعلمی میںراقم السطور نے ایک انٹرویو میں اُن سے یہ سوال کیا کہ ’’ آپ کی شاعری میں جو loudnessکا عنصر ہے جسے کچھ لوگ نعرے بازی کا نام بھی دیتے ہیں تو یہ ہماری روایتی شاعری میں تو نہیں ہوتا تھا‘‘۔ جالب صاحب نے اس پر کہا کہ: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی یہ کروں۔

میں لوٹوں گا غزل کی طرف،غزل آتی ہے، مصرعے آتے ہیں مگر اس میں دھیما انداز ہوتا ہے۔اس میں کاٹ نہیں۔لوگ کہیں گے تھک گیا، ہار گیا، بیٹھ گیا۔اس لیے جب تک یہ عہد چل رہا ہے ، میرایہ لہجہ بھی چلتا رہے گا۔یہ نہیں کہ مجھے غزل پسند نہیں یا یہ کہ اس قسم کی شاعری میں نہیں کرسکتا‘‘۔ہنگامی نوعیت کی ایسی شاعری سے قطع نظر جالب صاحب کی شاعری کا بڑا حصہ اُس احتجاجی اور مزاحمتی رنگ کا حامل ہے جو شاعرانہ اوصاف کا حامل بھی ہے ،جس کے سُر دھیمے اور دلنواز ہیں اور جو ہمارے ادب کی روایت میں بھی اپنی ایک جگہ بناتا نظر آتا ہے۔

جو دوسری اہم بات جالب صاحب کی احتجاجی اور مزاحمتی شاعری کو مزید وقعت کا حامل بناتی ہے وہ اُن کا وقت کا انتخاب ہے۔احتجاج دھیمے سُروں میں ہو یا اونچے سُروں میں ، یہ کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے۔بڑی عظیم الشان مزاحمتی شاعری، وقت گزر جانے کے بعد بھی کی گئی ہے۔آج بھی ماضی کے تلخ اور اندوہناک انسانی تجربات کو شاعری کا موضوع بنایا جاتا ہے۔دنیا کی کتنی پُراثر رزمیہ اور المیہ شاعری وقوعہ کے برسوں بلکہ صدیوں بعد تک لکھی جاتی رہی۔

یہی نہیں بلکہ احتجاجی شاعری ،بحرانی واقعات اور مقام ِ جدل سے فاصلے پر رہ کر بھی ہوسکتی ہے۔فیضؔ کی نظمیں_’’آجائو ایفریکا‘‘، یا ’’ایرانی طلبہ سے خطاب‘‘، مزاحمت کی وہ پُرتاثیر نظمیں ہیں جوشاعر نے زنداں خانۂ لاہور میں رہ کر لکھیں۔مگراحتجاج کی اُس شاعری کے مقام کا اندازہ کریں جو عین وقت پر، وقوعہ کے مقام پر کھڑے ہوکراور جبر کی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزاحمت کا اعلان کررہی ہو۔حبیب جالب کی شاعری اسی وصف کی حامل تھی۔ایوب خان کے 1962ء کے شخصی اور آمرانہ دستور کی آمد پر مری میں منعقدہ جشن ِدستور کے مشاعرے میں حبیب جالب کا یہ نظم پڑھنا ؎

دیپ جس کا محلّات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کی پلے

ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

کوئی معمولی بات نہیں تھی۔یہ سخت آزمائش اور ابتلا کو دعوت دینے کے مترادف تھا اور پھر ایسا ہوا بھی۔ اُن کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔کچھ عرصے بعد اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی معرکے میں وہ فاطمہ جناح کے جلسوں کو اپنی شاعری سے گرمائیں گے، اُن کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔1971ء میں مشرقی پاکستان کے بحران کو سیاسی ذرائع کے بجائے بندوق کی نالی کے ذریعے حل کرنے اور وہاں وحشیانہ فوجی کاروائی کرنے پر جہاں مغربی پاکستان کے اہلِ قلم کی بڑی اکثریت یا تو بے خبر رہی یا ا ُس نے خاموشی کی راہ اختیار کی، وہاں حبیب جالب، انتباہ کرتے نظر آئے ؎

محبت گولیوں سے بورہے ہو

وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

یہ کہہ کر حبیب جالب تو پسِ دیوارِزنداںچلے گئے، حکمرانوں نے اور قوم نے بہرحال منزل کھودی۔اوریوںجس کا دھڑکا تھا، وہ ہوگیا۔یا جب جنرل ضیاء الحق کا قہر ساماں دور اپنے عروج پر تھا، ملک بھر میں سراسیمگی چھائی ہوئی تھی، حبیب جالب کی یہ للکار کیا کوئی معمولی واقعہ تھی؟ ؎

ظلمت کو ضیا صر صرکو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گہر، دیوار کو در، کر گس کو ہُما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں دم گھُٹتا ہے گنبدِبے در میں

اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صر صرکو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ہم دسمبر1980ء کی وہ شام بھلانا بھی چاہیں تو وہ نہیں بھلائی جا سکتی جب کراچی پریس کلب کے لان میں حبیب جالب صاحب نے پہلی مرتبہ یہ نظم پڑھی تھی۔یہ خوف اور دہشت کا زمانہ تھا_انسان ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں، خونخواردرندے ہیں رقصاں_یہ ٹکڑا بھی اسی نظم کا حصہ تھا۔تب اس نظم کے ایک ایک مصرعے پر سینکڑوں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے اور تالیوں کی گونج سے کلب کے درودیوار لرز اُٹھتے۔اُس شام اقبال ؔ کے’’ بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندوں‘‘ کا سیلِ جذبات سب بند توڑ کر بہہ نکلا تھا۔یہ آزادی کے احساس اور روح کی لبریشن کا لمحہ تھا۔

بعض حلقوں کی جانب سے مزاحمتی اور احتجاجی شاعری کو یکسر ہی رد کردیا جاتا ہے ۔ان حلقوں کا خیال یہ ہے کہ کسی خاص وقت کے کسی خاص واقعے یا حادثے کو شاعری کا موضوع بنانا اس کو محدود کردینے کے مترادف ہے۔یہ شاعری صرف اپنے مقامی تناظر ہی میں اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس کی کوئی آفاقی حیثیت نہیں بن پاتی۔ایسی شاعری کو مذکورہ حلقے لمحے کی شاعری کہہ کر رد کردیتے ہیں۔

یہی اعتراض جب حبیب جالب کی شاعری پر عائد کیا گیا تو معروف ترقی پسند دانشور اور ادیب سید سبطِ حسن نے اس کا بڑا مسکت جواب دیا تھا۔انہوں نے لکھا:’’حبیب جالب بے شک لمحے کا شاعر ہے ، مگر یہ کتنا طویل لمحہ ہے کہ صدیاں گزرگئیں لیکن اس لمحے کا درد کم نہیں ہوتا۔یہ لمحہ ہمارے زوال و شکست ، ہماری مجبوریوں اور مظلومیوں ، ہماری جدوجہد اور قربانیوں کی نہ ختم ہونے والی داستان ہے ،جس کو حبیب جالب کا خونچکاں قلم فن کے پیرائے میں بیان کرتا رہتا ہے۔ان کی شاعری پاکستان کی منظوم تاریخ ہے، ایک مرقع ہے، جس میں حبیب جالب نے لمحے کی ہر چبھن، ہر ٹیس کی بڑی مخلصانہ نقش گری کی ہے ‘‘۔

ایک عام پاکستانی کی کشمکشِ حیات کے تناظر میں دیکھیں تو سبطِ حسن صاحب کی بات کو رد نہیں کیا جاسکتاکہ اگر وقت ہی ایک جگہ ٹھہر جائے ، لوگوں کے کسی اچھی دنیا کے خواب برسہا برس تک تشنۂ تعبیر رہیں اور حکومتوں اور حکمرانوں کے طور اطوار بھی نہ بدلیں تو وقت کی گھڑیاں گزرنے کے باوجود ایک عام انسان کے لیے تو وقت تبدیل نہیں ہورہا ہوتا۔

آج اگر حبیب جالب صاحب کی نظمیں اُسی قدر ذہنوں پر تاثر قائم کرتی ہیں جتنی ان کی زندگی میں کرتی تھیں تو سوچا جاسکتا ہے کہ پچھلے پچیس تیس برسوں میں ایک عا م انسان کی زندگی میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے، عُسرت اور ذلت کی زندگی گزارنے والے مجبور اور مقہورانسان کو ن سی نئی دنیا میں داخل ہوچکے ہیں کہ ان کے لیے حبیب جالب کی شاعری بے وقت کی راگنی بن چکی ہو۔جالب صاحب نے ایک درخشاں مستقبل کاخواب دیکھا تھا ۔

یہی خواب ہزاروںلاکھوں انسانوں کا خواب بھی تھا ۔وہ جمہوریت کو انسانی صورت حال کی بہتری کے لیے ناگزیر تصور کرتے تھے۔آمریتوں سے بغاوت اُن کا ایمان تھا۔وہ جمہور کے حقِ حکمرانی کے لیے نعرہ زن رہے ۔وہ عقوبت خانوں کی ابتلا سے پُر زندگی کے بھی عادی ہوچکے تھے۔سو یہ سب کچھ بہت معنویت رکھتا تھا اور اس سب کچھ کو لوگوں نے بھلانے سے انکار کردیا ہے ۔

جالب صاحب کے حالات نے ان کی شخصیت میں اضطراب اور بے کلی کے عناصر کو داخل کردیا تھا۔ذاتی زندگی کی مشکلات اُن کو پریشان بھی رکھتی تھیں مگر ان تمام حوصلہ شکن کیفیات کے باوجود انہوں نے اپنی نظریاتی زمین سے اپنے پائوں اکھڑنے نہیں دیے۔اُن کی نظریاتی استقامت نے اُن سے مشکل فیصلے بھی کرائے۔وہ مصلحت اور مصالحت سے ہمیشہ دور رہے اور اس دوری کی جو قیمت ہوسکتی تھی وہ انہوں نے بخوشی ادا کی۔

جالب صاحب کا سماجی شعور بہت پختہ تھا۔اُن کا ایک بہت واضح ورلڈ ویو تھا۔اُن کی جمہوریت پسندی کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں ۔وہ سماجی انصاف کے بھی علمبردار تھے اور اشتراکیت کے علی الاعلان پرچار ک تھے۔پھر وہ سامراجی چیرہ دستیوں اور استعماری نظام کی کھل کر مذمت کرتے تھے۔ایک موقع پر لندن میں افتخارعارف صاحب کے اردو مرکزسے جالب صاحب کے دوست کے گھر جاتے ہوئے جہاں وہ ان دنوں ٹھہرے ہوئے تھے، راقم السطور نے کار کی پچھلی سیٹ سے کھڑکی کے باہر دیکھ کر پاس بیٹھے ہوئے جالب صاحب سے کہا کہ دیکھیں سڑک کے دونوں طرف کیسی بلندو بالا عمارتیں کھڑی ہیں۔

انہوں نے کھڑکی سے باہر اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور بولے _’’ بھئی عمارتیں کیا ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے فائل چُنے ہوئے ہیں‘‘۔حبیب جالب صاحب کی شاعری کے مجموعوں میں کتنی ہی نظمیں قومی آزادی کی تحریکوں اور سامراج دشمن فکری وسیاسی رہنمائوں کے بارے میں ہیں۔جالب صاحب امن عالم اور خاص طور سے جنوبی ایشیا میں امن کے زبردست علمبراد تھے۔وہ پسے ہوئے طبقات کے ہمدم و ہمساز تھے۔انہوں نے خواتین کے حقوق کی خاطر عورتوں کے جلوسوں میں شرکت کرکے پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔غرض وہ ایک نظریاتی انسان تھے جنہوں نے اپنے عوام دوست نظریات کو تخلیق کا پیکر بھی فراہم کیا اور ان نظریات کی خاطر عملی جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔

جالب صاحب کو کبھی زندگی میں ایسی فراغت اور فرصت تو نہیں ملی کہ وہ خود اپنی تخلیقات کو لے کر بیٹھتے اور ان کو کسی اہتمام کے ساتھ شائع کرتے لیکن خوش قسمتی سے ان کے احباب اور ارادتمندوں کے طفیل اُن کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔’’برگ ِ آوارہ‘‘،’’سر مقتل‘‘،’’عہدِ ستم‘‘،’’ذکر بہتے خون کا‘‘، ’’گوشے میں قفس کے‘‘،’’’عہدِ سزا‘‘،’’حرفِ حق‘‘،’’اس شہرِ خرابی میں‘‘،اور’’رقصِ زنجیر‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔ان کے علاوہ ’’حرفِ سرِ دار‘‘کے نام سے ان کی کلیات بھی شائع ہوئیں۔ان سب مجموعوں میں وہ شاعری محفوظ ہے جو ایک شاعرِ صدق و صفا نے خونِ دل سے رقم کی اور اپنے لوگوں کی نذر کردی۔

تازہ ترین