گزشتہ برس بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منظور کیے گئے متنازع بل کے بعد یہ بات ہر ایک پر پوری طرح عیاں ہوگئی ہے کہ آٹھ دہائی قبل دو قومی نظریے کے بنیاد پر مسلمانوں کی تحریک، حقیقت پر مبنی تھی اور آج جو کچھ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہورہا ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ تقسیمِ ہند سے قبل اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب انگریز ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالنے لگے، تو انہوں نے اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کو لڑوانے کی پالیسی اختیار کی۔
چناں چہ انیسویں صدی کے اواخر تک ہندو، مسلم اختلافات ہندوستانی معاشرے میں جڑ پکڑ چکے تھے، جب کہ دوسری طرف ملّتِ اسلامیہ جب اسلام کے بنیادی مقاصد اور اسلامی تعلیمات سے غفلت کی مرتکب ہونے لگی، تو کرئہ ارض میں احیائے اسلامی کی متعدّد اہم تحریکات نے جنم لیا، لیکن تحریکِ پاکستان ان تمام تحریکوں میں اس لیے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہے کہ اس میں برصغیر کےمسلمان مفکّرین، مصلحین، علماء، فقہا، صوفیا اور اربابِ سیف و قلم کی بیش تر تعداد اس کی حامی اور حمایتی تھی۔
درحقیقت یہ تحریک قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کے تمام بالغ نظر مسلمانوں کی مثالی کوششوں کی علامت اور عکّاس تھی، لیکن اس کا سنہری دَور برصغیر میں مسلم لیگ کے قیام سے شروع ہوتا ہے، اور یہ وہ دور ہے، جو سرسیّد اور ان کے رفقاء خاص طور پر نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، سرآغا خان اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے فیض حاصل کرنے والے فرزندانِ اسلام، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی کی قربانیوں اور رہنمائی سے عبارت ہے، جسے علامہ اقبال کے افکار، مولانا ظفر علی خاں کی نگارشات اور قائداعظم محمّد علی جناح کے فرمودات نے نئی تازگی و توانائی بخشی اور برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت اور مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے ہندوئوں کی مخالفت، فرنگیوں کی مخاصمت اور قوم پرست مسلمانوں کی مزاحمت کے باوجود لاکھوں جانوں کا نذانہ پیش کرکے دنیا کی عظیم ترین اسلامی مملکت حاصل کی۔
اگرچہ برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے عوام کواقتدار سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے، 1936ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کو بری طرح ہزیمت اٹھانی پڑی اور اس کے اس دعوے کو شدید زک پہنچی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ کانگریس کو مدراس، یوپی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، جب کہ سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دے دی تھی، پھر سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے، کانگریس کو نمایاں کام یابی ملی۔
غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہوسکا، تو ان حالات میں ایسا محسوس ہواکہ جیسے مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوجائے گی۔بعدازاں، کانگریس نے بھی پہلی بار اقتدار کے نشے میں سرشار ہوکر کئی ایسے اقدامات کیے، جن سے مسلمانوں کے دِلوں میں خدشات و خطرات نے جنم لینا شروع کردیا، مگر، درحقیقت مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا یہی نقطہ آغاز تھا۔
اسی دوران دوسری جنگِ عظیم کی حمایت کے سبب کانگریس اور برطانوی راج کے مابین مناقشہ ہوا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی، تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دیئے۔ پھر اسی پس منظر میں 22مارچ کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 3روزہ اجلاس شروع ہوا۔ واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس ستائیسویں اجلاس سے قبل ہی قائد اعظم محمّد علی جناح فرماچکے تھے کہ ’’مسلم لیگ کا لاہور کا یہ اجلاس اسلامی ہند کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ ہمیں اس اجلاس میں متعدد نہایت اہم معاملات طے کرنے ہیں۔‘‘ بعدازاں، مذکورہ اجلاس میں اپنے تاریخی خطبے میں واضح کرتے ہوئے فرمایا ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے قومی تصوّر اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بتانا، ہندوستان کی تاریخ جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ایک ہزار سال سے ہندوئوں اور مسلمانوں کی تہذیب ایک دوسرے سے جداہے۔
دونوں قومیں آپس میں میل جول ضرور رکھتی چلی آئی ہیں، مگر ان کے اختلافات اُسی شدّت سے موجود ہیں اور ان کے متعلق یہ توقع رکھنا کہ وہ قومِ واحد بن جائیں گی، قطعاً غلط ہے۔ چوں کہ مسلمان ایک جداگانہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں، تو ان کا اپنا وطن، خطّہ ارض اور ریاست ہونی چاہیے۔ ہاں، البتہ ہم آزاد اور خود مختار لوگوں کی حیثیت سے، اپنے ہم سایوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے کے خواہش مند ہیں۔‘‘ قائد اعظم نے اسلام اور ہندو دھرم کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ’’دونوں دو علیٰحدہ علیٰحدہ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصوّرات اور حقائق پر رکھی گئی ہے، جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، بلکہ اکثر متصادم ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی سے متعلق بھی ہندوئوں، مسلمانوں کے خیالات و تصوّرات ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ اُن کے تاریخی وسائل اور مآخذ مختلف ہیں، اُن کی رزمیہ نظمیں، اُن کے سربرآوردہ بزرگ اور قابلِ فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور الگ الگ ہیں۔‘‘ اس موقعے پر انہوں نے گاندھی کوبھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مَیں کئی بار کہہ چکا ہوں اور ایک بار پھر کہتا ہوں کہ گاندھی جی دیانت داری سے تسلیم کرلیں کہ کانگریس ایک ہندو جماعت ہے اور وہ صرف ہندوئوں کی نمائندہ ہے۔ ‘‘ لیکن گاندھی نے مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے جواباً کہا کہ ’’ہندوستان میں جمہوری طور پر منتخب صرف ایک ہی سیاسی جماعت ہے اور وہ ہے کانگریس، باقی سب جماعتیں یا تو خود ساختہ ادارے ہیں یا فرقہ وارانہ اصولوں پر چُنے ہوئے مختصر گروہ۔ مسلم لیگ، کانگریس کی طرح منتخب جماعت ہے، مگر اس کا نصب العین فرقہ وارانہ ہے اور یہ بھارت کو دو حصّوں میں تقسیم کردینا چاہتی ہے۔‘‘ اس کے جواب میں مسلم لیگ نے واشگاف الفاظ میں تردیدکی کہ ’’کانگریس ملک کی واحد نمائندہ جماعت نہیں، مسلمانوں کی سب سے بڑی اور متحد جماعت مسلم لیگ بھی موجود ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کی تقسیم دو قومی نظریے کی بنیادپر ہونی چاہیے۔‘‘
اس تاریخ ساز اجلاس کے دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اُس زمانے کے بنگال کے وزیرِ اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی، جس میں کہا گیا کہ ’’اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابلِ عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا، جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹس کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ اُن علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے، یعنی ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، اُنہیں یک جا کرکے وہاں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں، جن میں شامل یونٹس کو خود مختاری اور حاکمیتِ اعلیٰ حاصل ہو۔‘‘
بعدازاں یہ قرارداد منظور کی گئی اور پھر اپریل 1941ء میں مسلم لیگ ہی کے ایک اجلاس میں’’ قرارداد لاہور‘‘ کو مسلم لیگ کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر تحریکِ پاکستان نے زور پکڑا اور برصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں نے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے منصوبے کی پرزور حمایت شروع کی۔نیز، بالآخر اسی دوقومی نظریے کی بنیاد پر برطانوی حکومت برصغیر کو دو آزاد، خودمختار ریاستوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے پر مجبور ہوگئی اور 14اگست 1947ء کو ایک اسلامی، نظریاتی ملک وجود میں آیا۔