• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں سفارتکاری کے طریقہ کار میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور ماضی کے فرسودہ طریقہ کار کی جگہ اقتصادی سفارتکاری نے لے لی ہے جس میں ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ کا فروغ بیرونِ ملک تعینات سفارتکار کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ اِس مقصد کے حصول کیلئے بیرونِ ملک تعینات سفارتکار غیرملکی سرمایہ کاروں، بزنس مینوں، فیڈریشن اور چیمبرز کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے اُن سے روابط بڑھاتے ہیں اور اُنہیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کی ترغیب دیتے ہیں جس کے مستقبل میں مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

اقتصادی سفارتکاری کا مشاہدہ مجھے اُس وقت ہوا جب پاکستان میں تعینات یورپی ممالک کے کئی سفارتکاروں نے پاکستانی بزنس مینوں، سرمایہ کاروں، فیڈریشن اور چیمبرز کے عہدیداروں سے قریبی روابط بڑھائے اور اُنہیں عشائیوں پر مدعو کرکے اپنے ملک میں سرمایہ کاری اور تجارت پر آمادہ کیا اور یقین دلایا کہ اُن کے ملک میں اُنہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ یورپی سفارتکاروں کی طرح اب تیسری دنیا کے سفارتکار بھی اقتصادی سفارتکاری پر عمل پیرا ہیں۔ یہاں میں بنگلہ دیش کے سفارتکاروں کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے ماضی میں کئی پاکستانی سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا اور پاکستانی سرمایہ کاروں نے بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اِس طرح بنگلہ دیشی سفارتکار اربوں ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری اپنے ملک لانے میں کامیاب رہے۔ اِس کے برعکس بیرونِ ملک تعینات کچھ پاکستانی سفارتکاروں کو چھوڑ کر زیادہ تر سفارتکار معاشی سفارتکاری سے لاعلم ہیں جن کے نزدیک سفارتکاری محض سفارتی عشائیوں میں شرکت کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا اور ہم گزشتہ کئی برسوں سے 25ارب ڈالر کی ایکسپورٹ تک محدود ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ 35ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ مراکش میں پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان جن سے میرے قریبی روابط ہیں، مراکش میں اقتصادی سفارتکاری پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے سفارتکاری کے جدید تقاضوں کو بھانپتے ہوئے حال ہی میں ڈاکٹر معید یوسف کو اقتصادی سفارتکاری کا فوکل پرسن مقرر کیا ہے جو اقتصادی سفارتکاری کے فروغ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر عمل پیرا ہیں۔ میں معید یوسف کی صلاحیتوں کا معترف ہوں جو اِس اہم عہدے کیلئے انتہائی موزوں تصور کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر معید یوسف نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ بین الاقوامی تھنک ٹینک اور جامعات کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ اُن کی تحقیقات کا مرکز جنوبی ایشیاکو درپیش مسائل کا خاتمہ، جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان باہمی تجارت اور خطے سے غربت کے خاتمے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہے۔ معید یوسف بین الاقوامی تنازعات کے تصفیہ کیلئے قائم امریکی ادارے USIPسے تقریباً 10سال تک وابستہ رہے ہیں جبکہ وہ قائداعظم یونیورسٹی میں دفاعی اور سیاسی معیشت کے کورسز پر لیکچر دینے کے علاوہ ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ میں باقاعدگی سے کالمز تحریر کرتے رہے ہیں۔

اقتصادی سفارتکاری کا فوکل پرسن ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر معید یوسف نے گزشتہ دنوں اقتصادی سفارتکاری سے متعلق اقدامات پر ایک بریفنگ کا اہتمام کیا جس میں، میں بھی شریک تھا۔ بریفنگ میں انہوں نے مستقبل میں پاکستان کی معاشی میپنگ کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔ معید یوسف نے بتایا کہ مستقبل میں معاشی سفارتکاری ہمارے سفارتی تعلقات کا اہم جزو ہوگا اور معاشی تحفظ، ریجنل کنکٹویٹی اور امن کا بیانیہ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہوگا جس پر عملدرآمد کیلئے معاشی سفارتکاری پر عمل پیرا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں جلد ہی معاشی سفارتکاری ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں نئے افسران کو معاشی سفارتکاری اور پبلک ڈپلومیسی کے حوالے سے خصوصی تربیت دی جائے گی جبکہ اکنامک آئوٹ ریچ ایپیکس کمیٹی اقتصادی سفارتکاری کو مضبوط بنائے گی۔ اس موقع پر میں نے ڈاکٹر معید یوسف کو 1.3ارب کی آبادی رکھنے والے خطے افریقہ جہاں پاکستان کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے، پر توجہ دینے، مقامی زبان سے واقف کمرشل قونصلرز، افریقی ممالک کے اچھے بزنس مینوں کو اعزازی قونصل جنرلز متعین کرنے اور سفارتکاروں کو ہدف دینے کی تجویز پیش کی جس سے انہوں نے اتفاق کیا۔ اس سلسلے میں، میں نے اُنہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین بھی دلایا۔

اقتصادی سفارتکاری جدید سفارتکاری کا ایک اہم جز ہے مگر افسوس کہ ماضی میں بیرون ملک متعین پاکستانی سفارتکار معاشی سفارتکاری کے جوہر دکھانے میں کوئی قابل ذکر خدمات انجام نہ دے سکے۔ وقت آگیا ہے کہ وزارت خارجہ اور دنیا بھر میں قائم سفارتی مشنز پاکستان کے معاشی مفادات کو Safeguardکرنے میں اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔ اگر بیرون ملک تعینات پاکستانی سفارتکار بہترین معاشی سفارتکاری کے جوہر دکھاتے ہیں تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت میں دگنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین