کراچی، اسلام آباد(جنگ نیوز، اسٹاف رپورٹر، نمائندہ جنگ)2آرڈیننس ، 290 ارب کے ٹیکس،ایک میں 140 ارب کی انکم ٹیکس چھوٹ ختم، دوسرے میں گردشی قرضے کنٹرول کیلئے بجلی صارفین پر 150ارب کاسرچارج ،صدارتی آرڈیننس کیلئے ضابطے کی کارروائی مکمل، اٹارنی جنرل کی وزیراعظم سے مشاورت،ادھر اسٹیٹ بینک نےکہا ہے کہ بجلی، چینی اور گندم کی سرکاری قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھی، نئے ٹیکسوں سے مزید بڑھ سکتی ہے۔
شرح سود7فیصد برقرار ،پالیسی ریٹ میں محتاط اور بتدریج تبدیلی کی جائیگی،سازگار تبدیلیوں سے روپے کی قدر میں 3.4فیصد اضافہ ہوا، 7مہینوں میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں 7.9فیصد نمو ہوئی،دوسری جانب گزشتہ ہفتے 9اشیاءکی قیمتوں میں کمی، 22 میں اضافہ ، 20 کی قیمتیں مستحکم رہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ایک دن میں دو آرڈی ننس جاری کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک ٹیکس قوانین کا ترمیمی آرڈی ننس کابینہ نے منظور کیا ہے جس کے نتیجے میں 140ارب روپے کی انکم ٹیکس چھوٹ ختم کی جا ئے گی جبکہ وفاقی کابینہ نے آٹو ڈس ایبل سرنجز پر ٹیکس چھوٹ کی منظوری دی ہے۔
آٹو ڈس ایبل سرنجز پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ ہوگی۔ ریئل اسٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹ سے متعلق چھوٹ برقرار رہے گی ۔وزیر اعظم کی ہدایت پر ان تجاویز کو آرڈیننس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
وزارت صحت نے سرنجرز کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ مانگی تھی۔ روایتی سرنجوں کی بجائے آٹو ڈس ایبل سرنجز کا استعمال بڑھانے کے لیے چھوٹ دی گئی۔
دوسرا آرڈی ننس بجلی کے صارفین پر سر چارج لگانے کیلئے جاری کیا گیا ہے جس سے 150ارب روپے کا بوجھ صارفین پر پڑے گا۔ اس طرح مجموعی طور پر 290ارب روپے کا بوجھ شہر یوں پر ڈالا گیا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔دونوں آرڈی ننس سر کولیشن کے ذریعے کابینہ نے منظور کئے ، پارلیمنٹ کو بھی عملی طور پر بائی پاس کیا گیا ہے۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو ہیڈ آفس میں منعقد ہوا، اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اجلاس کے بعد جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری میں ہونے والے اجلاس کے بعد نمو اور روزگار میں بحالی آتی گئی ہے اور کاروبار کا اعتماد مزید بہتر ہوا ہے۔
نمو جو کہ 3 فیصد کے لگ بھگ ہے ابھی تک معتدل ہے تاہم مالی سال 21ء میں پیش گوئی کے مطابق اُس سے زیادہ ہونے کی امید ہے جس کی پہلے توقع تھی جس کا سبب اشیا سازی کے بہتر امکانات اور جزوی طور پر کووڈ کے دوران فراہم کردہ زری اور مالیاتی تحریک ہے۔مہنگائی کے حالیہ اعدادوشمار متغیر رہے ہیں اور جنوری میں دو سال سے زیادہ عرصے میں عمومی مہنگائی پست ترین رہی ہے جس کے بعد فروری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
اسٹیٹ بینک کے تخمینوں کے مطابق بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ اور چینی و گندم کی قیمتیں، جنوری اور فروری کے اعدادوشمار کے مابین مہنگائی میں 3 فیصدی درجے اضافے کے تقریباً 1½ فیصدی درجے کی ذمہ دار ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آئندہ مہینوں کے دوران عمومی مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہوتا رہے گا جس سے مالی سال 21ء میں اوسط مہنگائی قبل ازیں اعلان کردہ 7-9 فیصد کی حدود کی بالائی حد کے قریب رہے گی۔