دریائے گیاری، بلافون گلیشیئر سے نکلتا اور دم سم دریا میں شامل ہوجاتا ہےاور گیاری ویلی اس دریا کے دونوں اطراف واقع ہے، جس کا دامن بلا فون گلیشیئر سے گاما تک پھیلا ہوا ہے۔ علاقے کی بلندی 12,000 سے 13,500فٹ تک ہے۔ یہاں ایک 700 سال پرانی مسجد بھی واقع ہے، جو صوفی بزرگ شاہ علی ہمدان سے منسوب ہے۔ یہ وہی بزرگ ہیں، جنہیں علّامہ اقبال نے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’درِ حضور شاہ ہمدان‘‘ کے عنوان سےایک نظم لکھی تھی۔
اس مقام پر 6ناردرن انفینٹری (این ایل آئی) کا بٹالین ہیڈکوارٹر بنایا گیا تھا، جس کے جنوب میں ایک پہاڑ ہے، جس پر گلیشیئرہے او راس کے سامنے والی دیوار کو’’ راک وال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گیاری سے نزدیک ترین پوسٹ، شمال میں 2کلومیٹر کے فاصلے پر تھی، جب کہ 18 کلو میٹر جنوب میں گاما بیس ہے۔ اس خوب صُورت وادی، گیاری میں بٹالین ہیڈکوارٹر 1987ء میں قائم کیا گیا اور افسروں، جوانوں کو اونچائی کی اگلی پوسٹوں پر بھیجنے سے پہلے یہاں تیاری کروائی جاتی، تاکہ وہ اپنے آپ کو موسم کے مطابق ڈھال سکیں۔ اسی طرح جو اوپر سے نیچے آتے، انہیں بھی یہاں ڈی بریف کیا جاتا۔ یہاں لگ بھگ 200افراد کی رہائش موجود تھی۔
6این ایل آئی، بٹالین ہیڈکوارٹر کا حصّہ تھی، جسے (بیلا فونڈلا) علی برانگس سیکٹر کے دفاع پر مامورکیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی یہی یونٹ 1988-89ء کے درمیان یہاں قیام کرچکی تھی۔ اس لحاظ سے یہ 6 این ایل آئی کا دوسرا عہد تھا۔ پچھلے عہد میں اس یونٹ نےمشہور، چھومک آپریشن میں حصّہ لیا تھا، جس میں نوید ٹاپ کی ،جوکہ 22500پر واقع ہے، حفاظت کرتے ہوئے 3آفیسر زاور 4جوان شہید ہوئے تھے،مگر 7اپریل 2012ء کو اس یونٹ کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے امتحان سے گزرنا پڑا، جب 6،7اپریل کی درمیانی شب ایک بہت بڑا برفانی تودہ برق رفتاری سے بٹالین ہیڈکوارٹر پر گرا اور 140افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ ان میں تین افسران، 4لانس نائکس، 122سپاہی اور 11سویلین تھے۔
6اپریل کی رات انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کررہی تھی اور جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کی یخ بستگی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔رات کے کھانے کے بعد سوائے سنتریوں (گارڈز) کے ہر کوئی اپنی خواب گاہ کا رُخ کرچکا تھا۔ بٹالین ہیڈکوارٹر کے صاحبانِ اختیار افسران، اگلی پوسٹوں پر فون کرکے وہاں تعیّنات لوگوں کی خیریت اور مسائل معلوم کر رہے تھےکہ سیاچن پر سرکاری فرائض انجام دینے والے لوگوں کا یہی معمول ہے۔ کچھ جوان اپنے سلیپنگ بیگز میں گھسے خوش گپیوں میں مصروف تھے، جب کہ مٹی کے تیل سے روشن چولھے ماحول کو حرارت بخشنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سنتری وقفے وقفے سے سائٹ کے سیکیورٹی رائونڈز لگا رہے تھے۔
رات دو بجے تک جوانوں کی اکثریت سو گئی،صرف گنتی کے وہ چند لوگ جاگ رہے تھے ،جن کی نائٹ ڈیوٹی تھی اور انہیں اب بھی چند ضروری کام انجام دینے تھے، مگر وہ بھی سوچوں میں غلطاں تھے کہ آج ماحول میں یہ کیسی پراسراریت نظر آرہی ہے، جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات سے پتا چلتا ہے کہ آفیسر کمانڈنگ، لیفٹنینٹ کرنل تنویر الحسن اُس وقت بھی بیدار تھے یا تہجّد ادا کرنے کے لیے اُٹھے تھے۔
ڈیوٹی نان کمیشنڈ آفیسر (این سی او)، مشتاق حُسین بٹ، بیلا فون سیکٹر ہیڈکوارٹر میں بات کرکے کہ کسی مریض کوبحفاظت اگلی پوسٹ سے سیکٹر ہیڈاکوارٹر اسپتال منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے کہ اچانک گیاری سیکٹر کی ریڈیو لائنز آف ہوگئیں۔اور پتا چلا کہ ایک قیامت خیز برفانی تودے نے برق رفتاری کے ساتھ گیاری سیکٹر کے 140افراد کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔
چشمِ زدن میں اجل نے ایسا وار کیا کہ کسی بھی پوسٹ کی طرف سے برفانی تودہ گرنے کی پیشگی اطلاع تک نہ آسکی اور ساتھ ہی برف نے ہرطرف ،ہر چیز کو کفن کی طرح ڈھانپ دیا۔ نزدیکی پوسٹ کے افراد سمجھےکہ برفانی تودہ ان پر آگرا ہے، تو جلدبازی میں وہ جو احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے تھے ،وہ کیں۔ لیکن کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوا کہ ان کی پوسٹ محفوظ ہے، مگر قریب ہی کہیں بڑا برفانی تودہ گر اہے۔ اس صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے جب انہوں نے گیاری فون کیا، تو وہاں سے کسی قسم کا جواب نہیں آیاکہ تمام ریڈیو لائنیز خاموش تھیں۔
پوسٹ کمانڈر میجر شاہد نے 3بجے سیکٹر ہیڈ کوارٹر میں میجر سیّد غلام عباس کو ،جو اُس وقت سیکٹر کمانڈر کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، بتایا کہ کوئی بہت بڑا برفانی تودہ ہمارے قریب ہی گرا ہے اور ہمارا بٹالین ہیڈکوارٹر گیاری سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔جس پر سیکٹر کمانڈر نے میجر شاہد کو حکم دیا کہ ’’فوراً ایک پارٹی کو گیاری خبر گیری کے لیے روانہ کردیا جائے اور وہاں کی صورتِ حال سے فوری آگاہ کیا جائے۔‘‘ مگر اس پارٹی (group of people)کو قدم قدم پر اتنی شدید برف باری کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے اور گیاری پہنچے بغیرہی موت کے منہ سے بچ کر اپنی سائٹ واپس پہنچے۔
آکر حالات و واقعات سے پوسٹ کمانڈر اور سیکٹر کمانڈر کو آگاہ کیا، پھرآفیسر کمانڈنگ 107فیلڈ رجمنٹ آرٹلری، لیفٹنینٹ کمانڈر شاہد ابڑو اور کمانڈنگ آفیسر 144میڈیکل بٹالین، لیفٹنینٹ کرنل شیخ حُسین گاما ایمرجینسی پیٹرول پارٹی کو لے کر گیاری پہنچے اور یہ دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گئےکہ بٹالین ہیڈکوارٹر گیاری نیست و نابود ہوچُکا تھا۔ کمانڈر، فورس کمانڈ ناردرن ایریاز (ایف سی این اے) لیفٹنینٹ جنرل اکرام الحق اس وقت جی ایچ کیو، راولپنڈی آئے ہوئے تھے ،جہاں انہیں گیاری سانحے کی اطلاع دی گئی ، تو وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر فوراً گیاری کے لیے روانہ ہوگئے۔
حادثے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل چکی تھی اور ایک سو کے قریب افراد جمع ہوکربرف کے تودے میں اپنے پیاروں کے جسدِ خاکی تلاش کررہے تھے ۔ اس موقعے پر کمانڈر ایف سی این اے نے لوگوں سے کہا کہ’’ ہم سب اپنے عزیزوں کو تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔‘‘ برفانی تودہ ایسی طوفانی رفتار سے حملہ آور ہواتھا کہ اس نے 15,000لیٹر کے فیول ٹینکر اور 200لیٹر تیل سے بھرےبے شمار بیرلز کو راک وال سے 800-500 فٹ کی بلندی پر خزاں کے پتوں کی طرح پٹخ دیاتھا۔
بٹالین ہیڈکوارٹر کی ہر شئے 140افراد کے ساتھ برف کے پہاڑ تلے دفن ہوچُکی تھی۔ 6این ایل آئی سیاچن کے دو اہم سیکٹرز کا دفاع کرتی تھی، اس بٹالین ہیڈکوارٹر کی وہی اہمیت تھی ،جو ایک جسم میں دماغ کی ہوتی ہے۔ کمانڈر کے سامنے اُس وقت دو بڑے چیلنجز تھے، سب سے بڑا چیلنج 140 افراد کو ملبے سےنکالنا اور دوسرا اس مشکل وقت میں اگلے مورچوںپر موجود جوانوں کے عزائم بلند رکھنا۔
خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے 6این ایل آئی کے صوبے دار، میجر یونس اور رِجمینٹل پولیس حوال دار کو قریبی پوسٹ سے فوری طور پر گیاری بلایا گیا اور وہ دونوں واقعی یونٹ کا اثاثہ ثابت ہوئےکہ وہ 140ساتھیوں کی جدائی کا غم دل میں سمیٹے ، اعصاب شکن سانحے کے باوجود بھی ان تمام افراد کی فہرست مرتّب کر رہے تھے، جو برف کے تودے تلے مدفون تھے۔
بریگیڈئیر کمانڈر 323،بریگیڈیئر ثاقب محمود ملک (اب میجر جنرل) اپنی ذمّے داریاں نبھانے کے لیے گیاری پہنچ چُکے تھے۔ آرمی کے تمام کمانڈرز، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے گُن گاتے ہیں،گیاری ریکوری آپریشن میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مُلک کے مختلف اداروں نے بھی عملی طور پر اور ماہرانہ مشوروں کی صُورت معاونت فراہم کرناشروع کردی تھی۔ مثلاً ،سپارکو نے سیٹلائٹ امیجز اورا سٹل فوٹو گرافی کے ذریعے بتایا کہ ملبے تلے کون سی چیز، کتنی گہرائی میں، کہاں دفن ہے۔ ہر قدم پر محسوس ہورہا تھا کہ تمام قوم اس سانحے میں موثر کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔
بہرحال، فیصلہ کیا گیا کہ صرف فوج ہی ’’ریکوری آپریشن‘‘ میں عملی طور پر حصہ لے گی کہ وہ سخت جان ہوتی ہے، باقی کسی کو ناگہانی حادثے کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔ 9اپریل تک جن مقامات کی نشان دہی ہوچکی تھی، وہاں ایف ڈبلیو او اور پی ڈبلیو او کی مشینری پہنچنے پر کھدائی کا کام شروع کردیا گیا۔ ای ایم ای نے اپنی مہارت کے بل بوتے پر مشینوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک ورک شاپ بنالی۔ 474انجینئر بٹالین کے لیبر اور ڈرائیورز نے بھرپور حصّہ لیا، ایس پی ڈی نے اپنی مشینیں بھجوادیں۔6این ایل آئی کا گاما میں دوبارہ بٹالین ہیڈکوارٹر قائم کردیا گیا ،جس کی سربراہی لیفٹنینٹ کرنل سید عباس شاہ نے کی۔ 10اپریل تک نئے آفیسر کمانڈنگ لیفٹنینٹ کرنل، صدیق سائٹ پر تعینات کردئیے گئے ،جو تہیّہ کیے ہوئے تھے کہ کمانڈر ایف سی این اے کی سربراہی میں کام کرنے والے افراد کی مدد سے یونٹ کا نعرہ "Men at their best" سچ کر دکھائیں گے۔ پاک فوج کے جوان گیاری کے یخ بستہ ماحول میں14سے 16 گھنٹے کام کررہےتھے۔ ان کی سہولت کےلیےموبائل ورک شاپ، سگنل ایکسچینج ، طبّی امداد کے کمرے اورایک اونچے مقام پر دیدبانی کے لیے اگلو کی صورت ایک پوسٹ بنادی گئی۔
دوسری جانب، میڈیا پر اس قومی سانحے پر دن رات گفتگو ہو رہی تھی ،قوم کا ہر شخص دُعاگو تھا کہ ملبے تلےدبے افراد کسی نہ کسی طرح زندہ نکال لیے جائیں۔ 12اپریل کو سوئٹزرلینڈ کی 3رکنی ٹیم نے مختلف آلات سے کچھ معلومات حاصل کیں، مگر ناکام رہی۔ 13اپریل کو جرمنی کی 6رکنی ٹیم اپنے کتّوں کے ساتھ پہنچی، مگر 16اپریل کو مثبت نتیجہ حاصل کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئی۔ اسی روز 3افراد پر مشتمل نارویجیئن اور 3افراد پر مشتمل امریکن ٹیم سائٹ پر پہنچی، مگر ایک دن قیام کے بعد بغیر کسی پیش رفت کے واپس چلی گئی۔ برطانیہ کے ایک پروفیسر نے گیاری کا دَورہ کیا اور اپنی ماہرانہ رائے دے کر واپس لَوٹ گئے۔
چائنا کی ایک ٹیم نے بھی اپنے ریڈاروں کے ساتھ گیاری کا چکر لگایا، مگر سب بے سود ثابت ہوا۔ دو ہفتوں میں چھے مختلف ممالک کی ٹیمز نے جو ماہرانہ مشورے دئیے، ان کا لبّ ِ لباب یہی تھا کہ 140افراد کی لاشیں نکالنے میں 12 سے 20سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ لہٰذا یہاں ان افراد کی ایک یادگار بنادینی چاہیے۔ لیکن آرمی کی ٹاپ لیڈر شِپ سے لے کر یونٹ تک کے لوگوں کا صرف ایک ہی فیصلہ تھا کہ ہم اپنے شہید وں کے جسدِ خاکی نکال کر ہی دَم لیں گے۔مسلسل کئی دنوں سے کھدائی اور ملبہ ہٹانے کاکام جاری تھا۔روشنی کا انتظام کرلیاگیا تھا کہ کام جاری رکھا جاسکے۔
مشینوں سے کام روک دیاگیا تھا اور صرف کدالوں اور ہاتھوں سے احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ برف ہٹائی جا رہی تھی ۔ بریگیڈئیر ثاقب اگلو میں نمازِ مغرب پڑھ رہے تھے ،6این ایل آئی کے میجر فاروقی کام کی نگرانی ، رہنمائی کررہے تھے کہ اچانک گیاری کی فضا، ’’نعرہ تکبیر، اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعرے سے گونج اٹھی، میجر فاروقی نے دوڑتے ہوئے اِگلو پرپہنچ کر کرنل ابڑو اور بریگیڈئیر ثاقب کو اطلاع دی کہ ہمیں کسی شہید کا جسد ِخاکی نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ 49روز کے اندر پاک آرمی کے جوانوں نے اللہ کی مدد سےایک ناممکن کام کوممکن کردکھایاتھا۔ شہید کا لاشہ سنتری چیک پوسٹ سے برآمد ہوا تھا۔شہید کی جیب سے اس کاشناختی کارڈ(جس سے اس کی پہچان سپاہی محمّد حُسین کے نام سے ہوئی)، سروس کارڈ، ماں کا میڈیکل کارڈ اور چُھٹی کے کاغذات نکلے۔
رات ڈیوٹی کے بعد اسے صبح اپنے گاؤں روانہ ہونا تھا تاکہ ماں کا علاج کرواسکے۔ شہیدوں کے اجسام تلاش کرنے والے جوانوں کے ہاتھوں میں سخت سردی کی وجہ سے فراسٹ بائٹ کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھیں، کیوں کہ اب یہ لوگ برف اپنے ہاتھوں سے کھرچ کھرچ کرہٹا رہے تھے، تاکہ شہیدوں کے اجسام کی بے حرمتی نہ ہو۔ رات8بجے تک مزید 2شہیدوں کے لاشیں نکال لی گئیں، جن کی پہچان سپاہی الیاس علی اور سپاہی راشد حُسین کے ناموں سے ہوئی۔ سپاہی راشد حُسین کا تعلق گاؤں پتن شیرخان، تحصیل پلندری سے تھا اوراس کی جیب سے اس کی تن خواہ 19,822روپے اور قومی شناختی کارڈ برآمد ہوا، جب کہ سپاہی الیاس علی کا تعلق خارکو لحار، تحصیل ڈھگونی ضلع گھانچے سے تھا۔
دونوں کی نمازِ جنازہ پہلے گیاری میں ادا کی گئی اور پھر انہیںآبائی گاؤں روانہ کردیا گیا ۔ جب گاؤں میں سینئر افسران اور یونٹ کے لوگوں نے الیاس علی کے والد سے تعزیت کی تو انہوں نے ایک اور قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ یہ میرا وہ قابلِ فخر بیٹا ہے ،جس نے معرکہ کارگل میں جامِ شہادت نوش کیا ۔‘‘کمانڈر نے اس عظیم باپ کو سیلوٹ کیا، گلے لگایا اور کہا ’’ اگر اجازت دیں ،تو مَیں ان شہیدوں کی ماں سے بھی ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ اسی دوران الیاس علی کے والد نے ایک 18یا19سال کے جوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ یہ میرا سب سے چھوٹا اور آخری بیٹا ہے ،براہِ مہربانی اسے بھی پاک آرمی میں بھرتی کرلیں۔‘‘ہے کسی میں اتنی جرات کہ ایسی غیرت مند اور شجاع قوم سے ٹکر لے سکے؟
بہر حال، پھر کمانڈر نے شہیدبیٹوں کی ماں سے ملاقات کی ، جو نم آنکھوں سے کہہ رہی تھیں، ’’جس میں ربّ راضی، اس میں ہم راضی۔مجھے فخر ہے کہ میرے بیٹے پاک دھرتی پر قربان ہوئے ۔‘‘یہ سُن کر کمانڈر سمیت تمام لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں کہ یہ کیسی ماں ہے، جوتین بیٹوں کی قربانی کے بعد بھی اللہ کا شکرادا کرتی نظر آرہی ہے ۔
ریکوری ٹیم نے26اگست 2013ء تک (368دن)، اوسطاً16 سے 18 گھنٹے روزانہ کام کرکے3.42ملین ٹن ملبہ کھودا ، جو حجم میں ٹوئن ٹاور سے دُگنا تھا۔ اورپاک آرمی نے 133شہداء کے اجسادِ خاکی ان کے عزیز واقارب تک پہنچا کر ہی دَم لیا۔؎ستارے مُلک و ملّت کے سرِ افلاک چمکیں گے…یہ جب بھی یاد آئیں گے دِلوں کے باغ مہکیں گے۔