• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر جوبائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے یہ کانفرنس رواں ماہ 22-23اپریل کو ایک ورچول اجلاس کی صورت میں ہوگی جس میں 40عالمی رہنمائوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ اجلاس اس لئے بھی ہو رہا ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ اس پیرس معاہدے سے نکل گیا تھا جو عالمی ماحولیات کے معاملہ پر 2015ء کو پیرس میں ہوا تھا، بعد ازاں یکم اپریل 2016 کو چین اور امریکہ، جن کا دنیا بھر کی تابکاری یا اخراج میں حصہ 40فیصد ہے، نے اس معاہدے پر دستخط کئے جبکہ ان کے علاوہ 195 دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان نے بھی اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ 2015ء کے آخر میں جب یہ کانفرنس ہوئی تھی تو اسے COP-21 کا نام دیا گیا تھا یا 21ویں کانفرنس آف دی پارٹینر، آسان لفظوں میں اسے یوں سمجھا جائے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی آلودگی اور گیسوں کے اخراج پر قابو پانےکے لئے دنیا کی تمام حکومتوں میں باہمی اتفاق رائے۔ مذکورہ کانفرنس کا بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ اس سیارے پر ہم سب رہتے ہیں لہٰذا سب کی رائے لینا ضروری ہے کہ سیارے کے ماحول کو کس طرح ٹھیک رکھا جائے اور گرین ہائوس گیسوں کو کم کرکے اس درجے تک لایا جائے جس سے موسمیاتی نظام کو انسان کی پیدا شدہ خطرناک آلودگی سے بچایا جاسکے، اب سوال یہ ہے کہ پاکستان جو اس معاہدے کا دستخط کنندہ بھی ہے،کیا وجہ ہے کہ اسے اس عالمی کانفرنس سے باہر رکھا گیا ہے؟

کیا پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے گزشتہ کوئی اڑھائی سال سے سرکردہ ملکوں کی طرف سے بڑے اور موقر عالمی فورمز میں پاکستان کو مدعو کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا، کیااس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت کی مجموعی کارکردگی سے کلیدی عالمی ادارے اور حکومتیں مطمئن نہیں ہیں حالانکہ ’’10بلین ٹری سونامی‘‘ اسی حکومت کے وزیراعظم عمران خان کا وہ منصوبہ ہے جو خالصتاً ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کےلئے ایک قابل تحسین منصوبہ ہے لیکن عمران خان کو سرے سے مذکورہ کانفرنس میں نہ بلانا اور نظر انداز کرد ینا حکومت پاکستا ن کے لئے یقیناً لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے اور حکومت کو اس ضمن میں عوام کے سامنے اپنا واضح نقطہ نظر رکھنا چاہیے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں ورلڈ بنک نے پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشاندہی کی ہے جہاں اگر جلد شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050ء تک ریگستان بن جائیں گے۔ اگلے روز برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی کہا کہ وہ اپنی حکومت کی بقیہ مدت کے دوران ہر سال برطانیہ بھر میں 30 ہزار ایکڑ پر نئے جنگلات لگائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو مذکورہ کانفرنس میں دعوت نہ دیا جانا اگرچہ ہمارے لئے سبکی کا باعث ہے لیکن ہمارا دفتر خارجہ اس پر کوئی وضاحت کرنے کی بجائے خود ہی ’’بلین ٹری سونامی‘‘ کی تعریفیں کرتے ہوئے دہائی دے رہا ہے کہ اس منصوبے کو عالمی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ہے لیکن کیا دفتر خارجہ کو یہ علم نہیں کہ اقوام عالم کو یہ بھی پتا ہے ’’لین ٹری سونامی‘‘ منصوبے میں اربوں روپے کا فراڈ کیس پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہے۔ شاید آئندہ ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کی انتظامیہ کو یہ بھی علم ہوگا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس گزشتہ چھ مہینے سے حکومتی اہلکاروں سے استفسار کر رہے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ اربوں روپے کے فنڈز کہاں خرچ ہوئے اور کن کی جیبوں میں گئے، چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ حکم ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’اسلام آباد میں پانچ لاکھ درخت کہاں لگائے گئے ہیں، اس پراجیکٹ کو کون چلا رہا ہے، کیا سارے درخت بنی گالہ میں لگائے گئے ہیں، چیف جسٹس نے عدالت میں کھڑے سیکرٹری ماحولیات کو کہا آپ کو تو جیل بھیج دینا چاہیے بلکہ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کا تو سارا عملہ چور لگتا ہے، نتھیا گلی، مالم جبہ اور مری سمیت کہیں کوئی درخت نہیں، ناران کاغان کچرا بن چکا ہے، جیل کے اطراف میں کوئی درخت نہیں اور بلوچستان میں تو درختوں کا وجود ہی نہیں‘‘۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے ’’10بلین ٹری سونامی‘‘ منصوبے پر اس قسم کے اظہار خیال کے بعد کیا کوئی گنجائش رہ جاتی ہےکہ عالمی سطح پر اس پراجیکٹ کی ستائش ہو، یقیناً امریکہ یا دیگر ممالک میں اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ نرسریوں سے پودے لینے اور زمین خریدنے میںمیگا کرپشن کے شواہد موجود ہیں۔ پھر ورلڈ انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے یعنی بنگلہ دیش کے علاوہ ساری دنیا کے ملک ہم سے زیادہ صاف ستھرے ہیں۔ اب ان حالات میں یہ جائزہ حکومت پاکستان کو لینا ہے کہ ویتنام، نائیجریا، کینیا اور بھوٹان جیسے ملکوں کو مذکورہ کانفرنس میں دعوت دے کر پاکستان کو آئوٹ کرنے کا کیا مطلب ہے آخر؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسی سال نومبر میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں بھی پاکستان کو مدعو نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے لئے سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ حالانکہ روس اور چین کے ساتھ امریکہ کی روایتی مخاصمت آج بھی جاری ہے لیکن اس کے باوجود ولادیمر پوٹن اور شی جن پنگ کو دعوت دی گئی ہے۔ وائٹ ہائوس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس سمٹ میں مدعو کئے جانے والے ممالک کی تین گیٹگریز تھیں ۔ نمبر ایک وہ ممالک جو امریکہ کے اتحادی ہیں، نمبر دو زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے ممالک، نمبر تین وہ ممالک جو ماحولیاتی اثرات سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، چنانچہ پاکستان دوسری اور تیسری شرط کے تحت تو مدعو کئے جانے کا اہل تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عالمی منظر نامے میں پاکستان کی اس قدر سبکی پر پاکستان کی خاتون وزیر ماحولیات کا دو سطری بیان تک سامنے نہیں آیا۔ کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ماحولیاتی وزیر مملکت زرتاج گل کو پاکستان کے سمندر، دریائوں اور فضائی آلودگی کا مکمل ادراک ہوگا ‘ اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی سامنے آئی۔حالانکہ ملک کی وزارت ماحولیات کے پاس 802.69ملین روپے سالانہ کے فنڈز ہیں۔کبھی ماحولیاتی آلودگی پر ان کا کوئی انٹرویو دیکھنے سننے میں نہیں آیا لیکن ہاں! ٹی وی ٹاک شوز میں روزانہ اپوزیشن پر تیروتفنگ اور تبرا بھیجتے ہوئے انہیں دیکھا، سنا جاسکتاہے۔

تازہ ترین