وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے یہاں فی زماننا ادب سے زیادہ ادب کی سماجیات پر زور صرف کیا جارہا ہے۔ بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ادب کی سماجیات کو بجائے خود ادب سمجھ لیا گیا ہے، اور اُس نے مقصد کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ ویسے تو سچ یہ ہے کہ ہم اب ایک عجیب دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ التباس اور مخمصے کا دور ہے۔ ایجادات، ترقی اور سہولتوں کی فراوانی کے اس سفر میں انسان اب ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے کہ جب اُس کی راہ میں آنے والے مناظر نے اُس کے اندر التباس کی کیفیت پیدا کردی ہے۔
اصل اور نقل، جھوٹ اور سچ، کھرے اور کھوٹے میں فرق اس حد تک مشکل ہوگیا ہے کہ بہت سے معاملات میں فوری طور پر اور وثوق سے کچھ طے کرنا ممکن نہیں رہا۔ انسان کی شناخت کرنے والی صلاحیتیں اور فیصلہ کرنے والی قوتیں بار بار مخمصے سے دوچار ہوتی ہیں۔ یہ اس جدید عہد کی صورتِ حال کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔
سچ اور جھوٹ یا کھرے اور کھوٹے کا مسئلہ کوئی نئی چیز تو ہرگز نہیں ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ اس آویزش کا حساب زمانۂ قدیم سے رکھتی چلی آتی ہے، لیکن اس دور میں آکر یہ مسئلہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں سچ کی بنیاد پر کھڑے ہونے والے اور جھوٹ سے کام لینے والے دونوں ہی بہ خوبی جانتے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ دونوں اپنے دائرۂ کار کا شعور رکھتے تھے۔ دونوں کی شناخت کے الگ الگ نشانات ہوا کرتے تھے جو حقیقت کے متلاشی کو راہ سجھاتے تھے۔
اِس عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کی سرحدیں نہ صرف مل گئی ہیں، بلکہ دونوں کے امتیازی نشانات بھی اب وہ نہیں رہے کہ انھیں فوراً اور جداگانہ طور پر پہچان لیا جائے۔ رنگ، آواز، لہجہ، اسلوب، انداز اور قرینہ کسی رخ سے دیکھ لیجیے، دونوں کی باہمی مماثلت دھوکے میں ڈالتی ہے۔ اس التباس کا کوئی فائدہ ظاہر سچ یا کھرے کو نہیں پہنچتا، وہ تو جھوٹ یا کھوٹ ہی کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، لیکن سچ یا کھرے تک رسائی آسان بہرحال نہیں رہی ہے۔
اب مثال کے طور پر ادب اور اس کی سماجیات ہی کو دیکھ لیجیے۔ ادب اور سماج کا باہمی رشتہ ہمیشہ سے اور دو طرفہ ہے، یعنی ادب نہ تو جنگل میں بیٹھ کر تخلیق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی معنویت کا اظہار جنگل میں ممکن ہے۔ یہ رشتہ جذب و انجذاب کی سی کیفیت رکھتا اور تہ نشین رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جن مظاہر میں یہ براہِ راست اور خارجی نوعیت کا نظر آتا ہے، مثلاً مشاعرہ، شامِ افسانہ یا شبِ داستاں جیسی محفلیں، وہاں بھی اس کے مفہوم و معنیٰ اور اثر پذیری کا عمل دراصل انفرادی اور داخلی قسم کا ہوتا ہے۔
گویا ادب کی سماجیات صرف ادب کی ترسیل سے تعلق رکھتی ہے، فروغِ معنی اور اثر آفرینی میں اُس کا ایسا کچھ کردار نہیں ہوتا۔ پہلے تو ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ اس بات کو عوام کا ایک بڑا حلقہ بھی واضح طور پر سمجھتا تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکیس ویں صدی تک آتے آتے صورتِ حال خاصی حد تک بدل گئی ہے۔ آج عوام تو رہے ایک طرف، خواص، یعنی اچھے خاصے درجے کے ادیب شاعر بھی اس حقیقت کو سرے سے سمجھتے ہی نہیں یا پھر دیدہ دانستہ اس کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس عہد میں ادب کی سماجیات کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے، اس درجہ وسیع کہ وہ فوق کا التباس پیدا کررہا ہے اور ادب اُس کا تحت معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت جب کہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک لمحے کے لیے ذرا سوچیے کہ اگر ادب نہ ہو تو ادب کی سماجیات چہ معنی؟ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ ادب کہ جو اصل شے ہے، وہ اب پس منظر میں ہے اور اُس کے نام پر کھیل تماشا ہر جگہ نظر آتا ہے۔ یہ جو آئے دن ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ کہیں ادب کا فیسٹیول چل رہا ہے، کہیں سیمینار ہورہا ہے اور کہیں کانفرنس— یہ سب اس دور میں خاص اہمیت حاصل کرگیا ہے۔ خیر، فیسٹیول تو ذرا ایک الگ چیز ہے اور ادب سے اس کا جوڑ بھی کچھ ڈھب سے نہیں بیٹھتا۔
اس لیے کہ مشاعرے اور افسانے کی محفلوں کے باوجود ادبی سرگرمی بہرحال ایک قدرے سنجیدہ کام ہے۔ فیسٹیول تو رونق میلے کو کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں جو لوگ ادب کو فیسٹیول بنا رہے ہیں، وہ یا تو ان دونوں کی فطرت کے فرق سے واقف نہیں ہیں، یا پھر وہ شعوری کوشش کررہے ہیں کہ ادب کو فیسٹیول کی سطح پر لایا جائے تاکہ وہ جو ذہن سازی اور کردار گری کی قوت رکھتا ہے، شعور کو مہمیز دیتا اور احساس کو بدلتا ہے، اُس کی یہ قوت زائل ہوجائے اور محض ایک تفریحِ طبع کی چیز ہوکر رہ جائے۔ خیر، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ سو، اس پر کسی اور وقت بات کرنا مناسب ہوگا۔
ادبی سیمینارز اور کانفرنسز پہلے بھی ہوتی تھیں، لیکن اس طرح سالانہ میلہ مویشیاں یا بسنت کے ہلے گلے کی طرح یہ کام اس تواتر سے ایک خاص وقت اور مخصوص انداز سے نہیں ہوتا تھا۔ پہلے یہ کام گاہے بہ گاہے ہوتا تھا۔ دوسرے، اس کی بردباری اور متانت کو بہرحال ملحوظِ خاطر رکھتا تھا۔ بردباری اور متانت کا مطلب یبوست ہرگز نہیں ہوتا۔ شگفتہ انداز، بلکہ طنز و مزاح تک میں بردباری اور متانت کا رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وہ شے ہے جو اپنے کام سے آپ کی وابستگی اور اُس کے لیے پیشِ نظر مقصد کے معنی کا تعین کرتی ہے۔ مقصد بڑا ہو تو وابستگی ہمیشہ گہری بنیادوں پر قائم ہوتی ہے، بہ صورتِ دیگر معاملہ صرف میلے ٹھیلے کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ فکری و نظری مقاصد کے حصول کے لیے میلے ٹھیلے کام نہیں کرتے، وہ تو صرف وقت گزاری اور تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
اپنے آخری زمانے میں ایک موقعے پر انتظار حسین صاحب نے کہا تھا کہ یہ جو ادبی کانفرنسز اور سیمینارز کی بہتات ہے، دہشت و خوف کے اس ماحول میں یہ ایک طرح سے ہماری تہذیبی روح کا ردِعمل ہے۔ ادبی سماجیات کے اس پورے سلسلے کو اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ بہت بامعنی اور خوش آئند معلوم ہونے لگتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے، مگر یہاں رُک کر دیکھیے اور سوچیے، کیا واقعی ایسا ہے؟ دس گیارہ برس پہلے جب یہ سلسلہ آغاز ہوا تھا، اس کے عقب میں دہشت گردی کے خلاف ہمارے تہذیبی و ادبی ردِعمل کی آرزو ہی کام کررہی تھی، لیکن بعد میں اس کام میں کچھ اور قوتیں بھی راہ بناکر داخل ہوگئیں۔ یہ قوتیں ہمارے قومی، سماجی، تہذیبی اور ادبی نظام و اقدار سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ ان کا منبع کہیں اور ہے۔ انھوں نے پہلے اس سلسلے میں اپنی جگہ بنائی اور پھر اپنے مقاصد کے حصول اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مصروفِ کار ہوگئیں۔ چناںچہ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان سیمینارز اور کانفرنسز کی وہ صورتِ حال ہے اور نہ ہی اُن کے وہ مسائل ہیں جو ابتداے کار میں تھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصے میں پہلے آپریشن ضربِ عضب اور بعد میں ردالفساد نے دہشت و خوف کے ماحول کے لیے نہ صرف ایک قومی بیانیہ اور سماجی شعور کا رویہ اجاگر کیا، بلکہ ملکی سطح پر نہایت نمایاں حد تک اس منظرنامے کو تبدیل بھی کیا۔ ظاہر ہے، یہ تبدیلی جوہری نوعیت کی تھی اور سمجھنا چاہیے کہ اس نوع کے کام کسی خاص مقصدی اور زمانی فریم میں آغاز ہوتے ہیں، اس فریم کی تبدیلی کے ساتھ ہی اُن کی معنویت، اہمیت اور ضرورت تبدیل ہوجاتی ہے۔
اب یہاں دو باتیں پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے، اوّل یہ کہ اس سلسلے کا مقصدی فریم بدل چکا ہے، دوم یہ کہ اس میں کچھ خارجی قوتیں اپنے مقاصد اور ایجنڈے کے ساتھ داخل ہوچکی ہیں۔ چناںچہ اب یہ وہ شے نہیں ہے جو پہلے ہم اسے سمجھ رہے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ بات قطعیت کے ساتھ اور واضح طور پر جان لینی چاہیے کہ ایک سلسلہ جس میں خود ہماری تہذیبی قدریں زوال آمادہ دکھائی دیں، وہ بھلا ہمارے تہذیبی ردِعمل کا مظہر کیسے ہوسکتا ہے؟
اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان سب کاموں کی مکمل نفی کردی جائے جو اس سلسلے میں ہوتے رہے ہیں اور کہا جائے کہ اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے۔ بالکل نہیں۔ مراد صرف یہ ہے کہ اب ہمیں آنکھیں کھول کر اور سنبھل کر اقدامات کرنے چاہییں۔ سب سے پہلے اُن قوتوں کو پہچاننا چاہیے جو ان مظاہر کے ذریعے ہماری توانائی اور جستجو کے جذبے کو خود ہمارے خلاف استعمال کرکے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس کے بعد اپنا قبلہ درست اور اپنے اہداف واضح کرکے پھر اپنی قوتوں کو صرف کرنا چاہیے۔ ادب کی سماجیات کا بھی بے شک معاشرے میں ایک کردار ہوتا ہے، لیکن مقدم سماجیات کو نہیں خود ادب کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ:
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی