• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری دنیامیں بجٹ خشک موضوع سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے لوگ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر اس پر بولتے بھی ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ فرانس ،اسپین اور رومانیہ سمیت یورپ کے مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے احتجاجی جلوس دیکھ لے۔ ہمارے ہاں بجٹ کی باتوں کو ”زاہدِ خشک“کی تقریر سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ بڑے برانڈز والوں کی تنظیم پاکستان بزنس کونسل نے وہ فرض نبھایا جو چھوٹے صارفین کی تنظیموں کو ادا کرنا چاہئے تھا۔
وکالت نامہ چھپنے تک بجٹ ہمارے دروازے پر ہو گا۔ ذرا سنیئے…؟ ہم معاشی طور پر کہاں کھڑے ہیں؟
پاکستان میں سیلز ٹیکس سب سے بڑا ٹیکس ہے جہاں اٹھارہ یا بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف ایک لاکھ بیس ہزار لوگ رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے بھی صرف چالیس ہزار اصل میں ٹیکس ریٹرن داخل کرتے اور ٹیکس دیتے ہیں۔ باقی سب کے لئے پشتو کا محاورہ ” اخپل بادشاہی“ سمجھ لیں یعنی ہم سارے بادشاہ ہیں ۔ ظاہر ہے بادشاہوں پرکون ٹیکس لگا سکتا ہے۔ سیلز ٹیکس کو دنیا بھر کے معاشی جادوگر مستقبل کا ٹیکس کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ واحد ٹیکس ہے جو افراطِ زر کے ساتھ ساتھ بڑہتا رہتا ہے۔ اسی لئے آج بین الاقوامی گاؤں کا کوئی ایسا نمبر دار نہیں ہے۔ جس کے ملک میں باقی سارے ٹیکس ختم نہ ہو گئے ہوں۔اس وقت فیڈرل ایکسائز بھی دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ چند ملکوں میں صرف کسٹم ٹیکس انتہائی کم ریٹ پر لاگو ہے۔ پاکستان میں سیلز ٹیکس جسے ترقی یافتہ ممالک میں ”VAT“ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کہا جاتا ہے۔ اُس کی شرح یا ریٹ سب سے زیادہ سولہ فیصد ہے۔جس کا مطلب ہے سو روپے کی چیز خریدنے والے کو سولہ روپے کا صرف ایک ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بڑے ملکوں کی دولت مند معیشتوں کو تو جانے دیجئے، بنگلہ دیش جیسے ملک میں اس ٹیکس کا ریٹ صرف پانچ فیصد ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت لکھنی پڑ رہی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس جمع کرنے کا ریٹ بنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے اور نئے دولتمندوں کو ٹیکس کے جال میں لانے کیلئے پاکستان کے پاس نہ تو کوئی روڈ میپ رہاہے نہ تو جرأتمند فیصلہ ساز معاشی منیجرز اور نہ ہی کوئی سوموٹو ہے۔ اس لئے اگر پاکستان نے ٹیکس کلچر اپنانا ہے تو فوری طور پر وزارتِ خزانہ کو تین ایکشن لینے ہوں گے۔
پہلا ایکشن یہ کہ کھانے پینے کی اشیاء کو چھوڑ کر باقی سارے معاشی شعبے سیلز ٹیکس کے جال میں لائے جائیں اور استثنیٰ کا لفظ دفنا دیا جائے۔ ٹیکس سے استثنیٰ بڑے سرمایہ داروں، بے رحم جاگیرداروں اور ظالم چور بازاروں کے ہاتھ کا ”گنڈاسہ “ہے۔ جسے دفنائے بغیر وحشت کا راج ختم نہیں کیا جا سکتا۔دوسرا ایکشن یہ کہ جو پاکستانی فرد ،ادارہ یا کمپنی اور کنسورشیم کاروباری ایکٹیوٹی کر رہا ہے۔ اس کی رجسٹریشن برائے سیلز ٹیکس لازمی قرار دی جائے۔ اور تیسرا ایکشن یہ کہ زمینوں کی خریدوفروخت،ریئل اسٹیٹ ڈیولپر سمیت سروسز کے دیگر شعبوں کو بھی سیلز ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ورنہ بجٹی دعوے اور پارلیمانی تقریریں روایتی اور نمائشی گولہ باری ثابت ہوں گی۔ سید ضمیر جعفری کے بقول:۔
کب تک گورکھ دھندہ۔ رسمی حرفوں "گروی رقموں" کا
چمڑی ادھڑی گائے کی اور بِکری بڑھ گئی”باٹے“ کی
اب آئیے انکم ٹیکس کی طرف… میرا آپ سے مذاق نہیں ہے۔ اس لئے جو لکھنے لگا ہوں اُس پر یقین کر لیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں کوئی اسے اسلامی امارت، کچھ اسے ایشین ٹائیگر اور بہت سارے اسے پیرس اور بچے کھچے اسے فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں ہر شہر میں شیٹوز، بنگلوز، اپارٹمنٹس، شاپنگ مال اور لگژری رہائش سمیت فارم ہاوسز کے نئے شہر آباد ہو رہے ہیں وہاں انکم ٹیکس والوں کے پاس صرف بائیس لاکھ لوگ رجسٹرڈ ہیں۔ میرے دوستوں حافظ ادریس ایڈوکیٹ اور ملک تحسین خالد عرف ٹی کے سینیئر، ایڈوکیٹ، کی ریسرچ کے مطابق ریٹرن فائل کرکے ٹیکس دینے والے صرف سات لاکھ لوگ ہیں۔ اکثریت بیچارے سرکاری ملازمین کی جن کا ٹیکس تنخواہ ادا ہونے یعنی ان کی محنت کا پسنہ سوکھنے سے پہلے کٹ جاتا ہے۔ اگر وزارتِ خزانہ انکم ٹیکس کا جال پھیلانے میں سنجیدہ ہے تو اُسے روایتی خوابِ خرگوش چھوڑ کر پاکستان بچانے کے لئے یہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے سارے کاروباری حلقوں بزنس سینٹرز اور سروسز، خدمات فراہم کرنے والے اشخاص اور مذہبی اور فلاحی عطیات وصول کرنے والے اداروں کے لئے ”NTN“ نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ منقولہ جائیداد یعنی گاڑیاں سامان اور اشیاء وغیرہ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ ہو سکیں۔ اور غیر منقولہ جائیداد جیسے پلاٹ گھر ، پلازہ، مارکیٹ وغیرہ جو زمین میں پیوست ہوتے ہیں ۔ ایسی ساری اشیاء کی خریدو فرخت کرتے وقت نیشنل ٹیکس نمبر پیش کرنے اور درج کرنے کی شرط لازمی قرار دی جائے۔ تیسرے یہ کہ ایگری سیکٹر یا زرعی شعبے میں اگرچہ سال دو ہزار سے آرڈیننس برائے زرعی ٹیکس لاگو ہے۔ مگر ٹیکس نہ ہونے کے برابر۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے … پنجاب کا زرعی ٹیکس پچھلے سال میں تقریباً صرف دو بلین روپے تھا۔ سندھ کے زرعی شعبے سے حاصل شدہ ٹیکس چند ملین سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جبکہ بلوچستان اور کے پی کے دونوں صوبوں کا ملا کر زرعی ٹیکس ایک بڑا صفر تھا۔
زرعی شعبے میں ٹیکس کی قابلِ رحم صورتحال کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ جس نے ٹیکس دینا ہے وہ طبقہ ٹیکس سوچنے اور ٹیکس لگانے والوں کے سر پر بطورِ باس اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھا ہے۔ ان پر ٹیکس لگانا میرے ایک سابق جرنیل دوست کے مطابق شیر کی مونچھ کھینچنے کے برابر ہے۔ دوسری بڑی وجہ صوبوں کے اندر زرعی ٹیکس کے قانون کو نافذ کرنے کیلئے نہ تو سسٹم موجود ہے اور نہ ہی قوتِ نافذہ یا نافذ کرنے کا کھلا فیصلہ اور ارادہ۔بابائے سوشلزم شیخ رشید نے کسان کمیٹیوں کی جدوجہد کے دوران اس بارے میں قابلِ قدر کام کیا تھا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں بھی آئینی پٹیشن کچھ دن کیلئے چلی۔ زرعی اصلاحات کا نفاذ اور ہاریوں اور کسانوں کے حالاتِ کار اور دن رات بدلنا میرے بڑے خوابوں میں سے اہم خواب ہے۔ اس لئے محتاط اعدادو شمار کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر صرف زرعی باغات پر ٹیکس لگا دیا جائے تو محض ایک صوبہ پنجاب سے ایک سو بلین سالانہ سے زیادہ جبکہ پورے ملک سے چھ سوتا سات سو بلین کے دوران روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔ میری صدا وہی ہے جو شورش کاشمیری نے ان لفظوں میں عشروں پہلے یوں دی تھی۔
دامن کشِ قربانی و ایثار کہاں ہیں
ائے قوم! ترے قافلہ سالار کہاں ہیں
جو ،شیر نیستاں ہیں وزارت کے نگر میں
وہ نعرہ زنِ عرصہٴ پیکار کہاں ہیں
کوئی رخِ روشن نہیں ویرانہ شب میں
خورشیدِسحر تاب کے آثار کہاں ہیں
ہماری معاشی صورتحال کا راسپوتین گشتی قرضہ ہے۔ پچھلے کالم میں اس بارے میں کھلے اشارے آ چکے ہیں۔ مگر اتنا سن لیجئے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ سن دو ہزار ایک کی دفعہ ایک سو چھیتر کے شیڈول نمبر دو کے پارٹ ون میں بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ اداروں کو ٹیکس سے استثناء حاصل ہے… قوم کیلئے یہ خبر نہیں احتجاجی نوٹ ہے۔ سیاسی لوگوں کے استثنیٰ پر چلانے والے سرمایہ داروں کے استثنیٰ پر کیوں چُپ کا روزہ نہیں توڑتے…؟ بجلی کی پیداوار بند رکھ کر سی پی سی فارمولے کے تحت قومی خزانے اور غریب عوام کی جیبوں سے اربوں کھربوں ڈالر کمانے والوں کے مقابلے میں ایٹمی پاکستان اتنا بے بس اور لاچار کیوں ہے…؟ بجٹ کا موضوع جتنا خشک ہے اس سے زیادہ تلخ بھی۔ پاکستان کے غریبوں کو معاشی انصاف دینے کے لئے نئی جمہوریت کو پانچ سال ملنے چاہیئں۔ پینسٹھ سال سے وزارتی گاڑیوں میں فراٹے بھرتے اور وزارتی دفتروں میں خراٹے بھرتے معاشی منیجروں کیلئے پانچ سال کیلئے کوئی استثنیٰ نہیں ہو گا تو پاکستان چلے گا نہیں،بلکہ دوڑ پڑے گا۔ پاکستان بزنس کونسل تیرا شکریہ۔ اس توجہ دلاو نوٹس پر۔ میں اسے ایوانِ بالا کے فلور پر بھی لے جاؤں گا۔
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی…
تازہ ترین