• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ کیا امریکا اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے؟ اور وہ دوبارہ نیوکلیئر ڈیل میں شامل ہونے جارہے ہیں؟‘‘ یہ سوال جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد سے مسلسل گردش میں ہے، جس کے جواب میں طرح طرح کے تجزئیے کیے جاتے رہے، تاہم اب سفارتی اُمور پر چھائی دُھند بڑی حد تک چَھٹ رہی ہے اور بہت کچھ صاف نظر آنے لگا ہے۔امریکا نے 6 اپریل کو اعلان کیا کہ’’ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ دوبارہ فعال کرنے کے لیے ویانا مذاکرات میں شرکت کر رہا ہے۔‘‘ اِس ایٹمی معاہدے میں شامل چھے ممالک کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش میں ہیں، جس سے یہ معاملہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکے اور امریکا دوبارہ معاہدے میں فعال ہوسکے۔

تاہم، اِس ضمن میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ صدر بائیڈن کی خواہش اپنی جگہ، لیکن معاہدے کو دوبارہ مؤثر بنانے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے ایران پر عاید کردہ اقتصادی پابندیاں ہٹانا بنیادی شرط ہے۔نیز، ایران کو اِس اَمر پر راضی کرنا ہوگا کہ وہ معاہدے میں طے شدہ فارمولے کے مطابق یورینیم افزودگی کی مقرّرہ حد پر واپس آجائے، جو پانچ فی صد سے کم ہے اور ایران اِن دونوں اُسے بیس فی صد تک لے جا چُکا ہے۔ایران نے اِس معاملے پر ابھی تک سخت مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اُس وقت تک معاملات آگے نہیں بڑھائے گا، جب تک اُس پر عاید پابندیاں نہیں ہٹائی جاتیں۔

یاد رہے، امریکا کے سابق صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس ایٹمی معاہدے کو انتہائی ناقص قرار دے کر امریکا کو اِس سے الگ کرلیا تھا۔اِس فیصلے سے اُن کے روایتی عرب حلیف تو خوش ہوئے، لیکن ایران سے تلخی اور دشمنی مزید بڑھ گئی۔رواں برس جون میں ایران میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یوں سفارت کاروں کے پاس معاملات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے دو مہینے سے بھی کم کا وقت ہے۔صدر روحانی، جو ایران کی طرف سے اِس نیوکلیئر ڈیل کے آرکیٹیکٹ ہیں، اِس مرتبہ انتخابات میں حصّہ نہیں لے سکیں گے، کیوں کہ وہ مسلسل دو بار صدر منتخب ہوچُکے ہیں اور ایران کے آئین کے مطابق، اب وقفے کے بغیر صدارتی انتخاب میں حصّہ نہیں لے سکتے، لیکن یہ طے ہے کہ دونوں جانب سے معاہدے میں امریکا کی دوبارہ شرکت کی خواہش موجود ہے۔

صدر جوبائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دَوران بار بار اعلان کرتے رہے کہ وہ امریکا کو ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل میں دوبارہ لانا چاہیں گے، کیوں کہ اُن کے مطابق یہی ایک ایسا راستہ ہے، جس کے ذریعے ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکا جاسکتا ہے۔امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ویانا اجلاس کے موقعے پر کہا کہ’’ بائیڈن انتظامیہ باہمی طور پر معاہدے کی پاس داری کا ماحول بنانا چاہتی ہے۔‘‘جب کہ ایران کا کہنا تھا کہ’’ ملاقات میں مُلک پر عاید پابندیاں اُٹھانے کے لیے بات چیت کی گئی۔‘‘ایران نے انتخابات میں بائیڈن کی فتح اور اُن کے اقتدار سنبھالنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا۔بظاہر وہ کچھ سخت بیانات دیتا رہا، لیکن اُس کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا گیا، جس سے امریکا کی دوبارہ ایٹمی معاہدے میں شمولیت ممکن نہ رہے۔

صدر ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں تمام خرابیوں کی جڑ ایران ہے۔ وہی علاقے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی پُشت پناہی کرتا ہے، اِس لیے اُس کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل اور وہ بھی نیوکلیر ڈیل، وقت کا زیاں ہوگا۔اِسی لیے اُن کی جانب سے نہ صرف ایران پر اقتصادی پابندیوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا، بلکہ فوجی اقدامات بھی کیے گئے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو، جو ایران کی دوسری سب سے طاقت وَر شخصیت مانے جاتے تھے، ایک حملے میں ہلاک کردیا گیا، جب وہ بغداد میں کار میں سوار ہو رہے تھے۔آیت اللہ خامنہ ای کے بعد سلیمانی ہی سب سے اہم شخصیت تھے۔وہ مشرقِ وسطیٰ سے جنوب مشرقی ایشیا تک خارجہ اور فوجی امور میں فیصلہ کُن حیثیت رکھتے تھے۔

کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ کے اِس اقدام نے نہ صرف ایران کو شدید صدمہ پہنچایا، بلکہ اُس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کو یک دَم بریک بھی لگا دیا، جس سے شاید ابھی تک وہ سنبھل نہیں سکا۔ ویانا اجلاس کے پہلے ہی دن امریکا اور ایران کے ماہرین نے وفود کی صُورت بات چیت کی۔نیز، شرکاء اِس بات چیت سے مطمئن بھی دِکھائی دیے، جس سے مذاکرات کی کام یابی کی سمت کا تعیّن ہوگیا۔ایران کے ترجمان علی ربائی نے اپنے بیان میں کہا کہ’’ پوزیشن حقیقت پسندانہ اور اُمید افزا ہے۔‘‘

اُنہوں نے کہا کہ’’ ہم پُراعتماد ہیں کہ صحیح راستے پر ہیں اور اگر امریکا کی سنجیدگی اور ایمان داری ثابت ہوجاتی ہے، تو یہ مستقبل کے معاہدے کے لیے اچھے اشارے ہیں۔‘‘اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ ایران تمام شرائط کم سے کم وقت میں پوری کرنے کو تیار ہے، بشرطیکہ ایسا ہی دوسری پارٹیز کی طرف سے بھی ہو۔‘‘ ایران کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا’’امریکا جانتا ہے کہ اُسے وہ پابندیاں اُٹھانی پڑیں گی، جو اِس معاہدے کے خلاف جاتی ہیں۔‘‘روسی نمائندے نے اپنے تاثرات میں کہا کہ’’ مذاکرات کا پہلا دَور کام یاب رہا، گو اس میں وقت درکار ہوگا، لیکن ماہرین کے گروپ نے منزل کی جانب بڑھنے کے اقدامات کا آغاز کردیا ہے، جو اہم ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے کہ اگر اُس پر سے جلد پابندیاں نہ اُٹھائی گئیں، تو انتخابات کے بعد صُورتِ حال مختلف اور مشکل ہوسکتی ہے، خصوصاً اگر سخت گیر اقتدار میں آجاتے ہیں۔ تاہم صُورتِ حال سے واقف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل طاقت تو آیت اللہ خامنہ ای کے پاس ہے، جو مُلک کے سپریم لیڈر ہیں اور جن کی اشیر باد کے بغیر کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں۔ 

صدر روحانی کے زمانے میں بھی خامنہ ای کی مرضی ہی سے مذاکرات ہوئے تھے کہ اُس وقت ایران کی اقتصادی صُورت حال بہت گمبھیر ہوچُکی تھی اور آج تو اُس کی معاشی حالت اُس دَور سے بھی بدتر ہے۔اُدھر، امریکا میں ایران کے مسئلے پر تقسیم پائی جاتی ہے۔دونوں ایوانوں میں پابندیوں کی حمایت کی گئی اور کسی مضبوط ضمانت کے بغیر کسی قسم کی نرمی کی مخالفت کی گئی۔اُن کے مطابق ،یہ مضبوط ضمانت ایران نے اپنے عمل ہی سے فراہم کرنی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور اُس سے متصل علاقوں میں بھی مسلسل تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں۔صدر بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو ایک ٹھنڈا سگنل دیا گیا کہ اب اُن کی حمایت اُس طرح جاری نہیں رکھی جائے گی، جس طرح صدر ٹرمپ کے دَور میں تھی۔اِس سلسلے میں دو واضح پیغامات دیے گئے۔ایک خاشقجی قتل کیس میں سعودی ولی عہد کو دبائو میں لانے کے لیے تھا۔ اِس مقصد کے لیے سی آئی اے کی ایک رپورٹ منظرِ عام پر لاکر اُس کی میڈیا میں تشہیر کی گئی۔ گو اس پر عملی قدم صفر کے برابر رہا۔

دوسرا سگنل یمن جنگ سے متعلق تھا۔ امریکا نے اِس سلسلے میں سعودی عرب کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کیا۔تاہم، یہ بھی علامتی نوعیت ہی کا بیان تھا، کیوں کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک خود بھی اِس جنگ کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔کورونا اور تیل کی کم قیمتوں نے اُن کے لیے اب یہ منہگی جنگ مشکل بنا دی ہے۔لیکن اس کے ساتھ عرب، اسرائیل کے مابین تعلقات قائم ہونا ایک غیر معمولی قدم ہے۔

یہ عربوں کی طرف سے جوبائیڈن کی ایران سے نیوکلیئر ڈیل کو کائونٹر کرنے کے مترادف ہے، کیوں کہ اسرائیل، ایران کا سب سے بڑا دشمن ہے، لیکن عربوں کی طرح اُسے امریکا اور یورپ نظر انداز کرسکتے ہیں اور نہ ہی روس اور چین کے لیے ایسا ممکن ہے۔اگر وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا اور یورپ کا واحد قابلِ اعتماد حلیف ہے، تو روس اور چین نے اُس سے جدید ٹیکنالوجی کے معاہدے کر رکھے ہیں۔جوبائیڈن اسرائیل فیکٹر سے کیسے نبرد آزما ہوں گے، یہ سفارت کاروں کے لیے دِل چسپی کا باعث ہوگا، کیوں کہ اس کے اثرات اگلے صدارتی الیکشن پر بھی مرتّب ہوسکتے ہیں۔

ایران نے حال ہی میں چین سے چار سو بلین ڈالرز کا ایک بڑا ترقّیاتی معاہدہ کیا ہے، جو پچیس سال پر محیط ہوگا۔اُسے کئی لحاظ سے سی پیک پلس بھی کہا جا رہا ہے۔ایسا ہے یا نہیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اب ایران بھی چین کا قریبی حلیف بن چُکا ہے۔پاکستان کو اِس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟ یہ بعد کی بات ہے، تاہم ایران کے لیے ایک بڑا چیلنج بھارت اور چین کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن دینا ہوگا کہ ایران کا چا بہار پورٹ بھارت نے تعمیر کیا، جب کہ گوادر پورٹ، جو اُس کے بالکل متوازی ہے، چین نے پاکستان کے لیے بنایا اور وہی اُسے آپریٹ کر رہا ہے۔ 

یہ دونوں بندرگاہیں اُس سپلائی لائن پر واقع ہیں، جس سے یورپ اور مشرقِ بعید کو تیل فراہم کیا جاتا ہے۔ کیا یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی یا ایک دوسرے کی معاون؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا کی طویل عرصے سے جاری اقصادی پابندیاں ایران کو چین کے قریب لائیں۔وہ اپنا تیل عالمی قیمتوں سے کم نرخوں پر چین کو فراہم کرنے پر تیار ہوگیا تاکہ اُس کی قومی آمدنی میں طویل مدّت تک اضافہ ہوسکے۔ اس چار سو ارب ڈالرز کے ایران، چین معاہدے سے متعلق جو معلومات سامنے آئی ہیں، اُن سے لگتا ہے کہ اِس معاہدے سے پچیس برس تک ایران کی کم زور معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔چین بنیادی طور پر ایران کے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔ 

ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات کے شعبے بھی معاہدے میں شامل ہیں، جب کہ اس میں فوجی پہلو بھی موجود ہیں۔معاہدے کے تحت پہلی مرتبہ دونوں مُلک مشترکہ فوجی مشقوں، ہتھیاروں کی ترقّی، انٹیلی جینس شیئرنگ اور ریاستی سلامتی اُمور کے معاملات میں تعاون کریں گے۔اِسی معاہدے کے تحت چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے پانچ ہزار فوجی بھی ایران میں تعیّنات کیے جائیں گے۔تاہم ماہرین کے مطابق، چین مشرقِ وسطیٰ میں کسی ایران، عرب تنازعے کا حصّہ نہیں بننا چاہتا۔

اِس سے قبل وہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بھی اربوں ڈالرز کے معاہدوں پر دست خط کرچُکا ہے۔ ایران کی جانب سے اس معاہدے میں تیزی کی اہم وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ امریکا کی طرف سے اُسے تنہا کرنے کی کوششوں کے منفی اثرات چین کی سرمایہ کاری سے دُور کرنا چاہتا ہے۔نیز، اس معاہدے نے اُسے امریکا سے مذاکرات میں مضبوط پوزیشن بھی دی ہے، لیکن کچھ عرب تجزیہ کاروں کے مطابق ایران،چین معاہدے کے اس خطّے پر دُور رَس اثرات مرتّب ہوں گے۔

جب یہ معاہدہ سامنے آیا، تو امریکا نے اس پر شدید ردّ ِعمل کا مظاہرہ کیا اور اسے چین کی جانب سے ایک منفی قدم قرار دیا، لیکن نیوکلیئر ڈیل پر بائیڈن انتظامیہ کی حالیہ پیش قدمی سے لگتا ہے کہ وہ ایران کو مکمل طور پر چینی کیمپ میں جانے سے روکنا چاہتا ہے۔ اگر امریکا کی پالیسی پر نظر ڈالی جائے، تو اُس کی دل چسپی اب مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاء میں بہت محدود ہوتی جا رہی ہے۔

وہ افغانستان سے جا رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں کوئی بڑا قدم اٹھانے سے گریز کر رہا ہے۔اس کی تمام تر توجّہ انڈوپیسیفک پر ہے اور وہیں چین سے مقابلے کے لیے صف بندی بھی کر رہا ہے۔غالباً اسی لیے چین نے امریکا کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا اِس طرح پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ ( جس کا وہ بار بار اظہار بھی کرچکا ہے) اُسے مشرقِ وسطیٰ میں اُس کا جائز تاریخی مقام دیا جائے۔اِس سلسلے میں اُس نے اپنی خارجہ پالیسی میں بہت زیاد لچک رکھی ہے۔

وہ امریکا اور اسرائیل کا دشمن نمبر وَن ہے، لیکن اُس نے صدّام حسین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا۔مالکی سے لے کر اب تک کی تمام عراقی حکومتوں کو سپورٹ کیا، جنھیں امریکا کی پٹّھو حکومتیں تصوّر کیا جاتا ہے۔وہ چین سے پہلے روس سے بھی ایسے ہی دس سالہ معاہدے کرچُکا ہے۔علاوہ ازیں، اس نے شام میں اسد حکومت کا ساتھ دیا اور اُسے عوامی مزاحمت بزورِ طاقت ختم کرنے میں مدد دی۔ فلسطین کاز کا سب سے بڑا حمایتی بنا رہا، لیکن پڑوسی عرب ممالک سے تعلقات دشمنی کی حد تک خراب رہے۔

جنوبی ایشیا میں بھارت سے اُس کے بہت اچھے تعلقات ہیں، جب کہ پاکستان سے تعلقات میں تنائو آتا رہتا ہے۔نیوکلیئر ڈیل میں امریکا کے ساتھ شمولیت اور دوسری طرف چین سے اِتنا بڑا معاہدہ، یہ دونوں ایشو مستقبل میں ایران کے لیے چیلنج رہیں گے۔

تازہ ترین