حسن عسکری
پاکستان کا معرض وجود میں آنا اس خواب کی تعبیر ہے جو علامہ اقبال نے دیکھا، ہم یہ جملہ اکثر فرط مسرت کے ساتھ سنتے ہیں، مگر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ خواب اور اس کی تعبیر میں کتنے ہفت خوان طے ہوئے۔ پاکستان کی تشکیل سے بڑھ کر تعمیر نو کی اہمیت کا اندازہ کرنا ضروری ہے۔ امت مسلمہ کی حالت زار خصوصاً اس خطہ زمین پرغلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مسلم آبادی نے جو بے یقینی دیکھی اس پر علامہ اقبال جیسے دردِ دل رکھنے والے فلسفی شاعر پر کیا گزرتی رہی بیان کرنے کی خاطر خود ان کی شاعری کا مطالعہ کرنا کافی ہے۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے
اقبال نے خود اپنے خواب کو حقیقت بنتے نہیں دیکھا مگر انہیں یقین کامل تھا کہ آزادی اور مملکت خداداد لازم وملزوم ہیں اور قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان بن کر رہے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اس مقصد عظیم کو حاصل کرنے میں اور تعمیر نو کی خاطر کیا کردار ادا کیا تو اس کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان کی تعمیر نو اور فکر اقبال ایک دوسرے سے مربوط ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ستر برسوں میں ہم نے جہاں ایک طرف بہت کچھ کھویا وہاں ہم نے بہت کچھ پایا بھی ہے۔
اگرچہ بابائے ملت کو زندگی میں ان کی ریاضت کا ثمر ملا لیکن انہیں مہلت نہ ملی کہ وہ اس پھل کا ذائقہ بھی چکھتے اور مستقبل سے متعلق اپنی قوم کی عملی رہنمائی میں بھر پور کردار ادا کرتے، اس کے باوصف آزادی جیسی نعمت سے بہرہ ور ہو کر ہم نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے فرامین کو پیش نظر رکھا۔ ہمارے حکمران قوم کی توقعات پر پورے نہ اترے، مگر قوم کے باشعور افراد میں علامہ اقبال کی تعلیمات مقبول رہیں اور تعمیر نو کا خیر عمل جاری و ساری رہا۔ یہ درست ہے کہ فوجی طالع آزماؤں کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا اور ہم کفِ افسوس مل کر رہ گئے، مگر اس کے بعد ہم نے اپنی شناخت میں کوئی کمی اٹھا نہیں رکھی۔
پاکستان کی تعمیر نو میں شعبۂ تعلیم نے اہم کردار ادا کیا۔ آج تعلیمی ادارے جدید علوم و فنون اور وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی سائنسی معلومات سے بھرپور طور طریقے اپنا رہے ہیں ورنہ ابتدا میں گنے چنے کالج اور غیرمعیاری سکول یا دینی مدرسے تھے اور ہم غلامی سے نجات پاکر بھی اسی روش پر چل رہے تھے جو پہلے سے موجو تھی، مگر آج صورت احوال بہتر ہے۔ فنونِ لطیفہ کا شعبہ کسی قوم کے جمالیاتی ذوق کا مظہر ہوتا ہے، آج تمام فنونِ لطیفہ میں ہم خودکفیل ہیں، خصوصاً خطاطی، مصوری اور شاعری میں ہم بھارت سے بہت آگے ہیں، علامہ اقبال کی شاعری میں جو پیغام نوجوان نسل کو ملا اسے ہمیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت رہے گی، وہ ہر نوجوان کو یہی بتانا چاہتے ہیں کہ
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آج پاکستان میں حصول علم کی خاطر ہر باشعور گھرانہ سخت محنت اور سرمایہ کاری کو شعار زندگی بنا چکا ہے۔ یہ سب علامہ اقبال کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا نتیجہ ہے کہ زندگی میں آسانیاں تلاش کرنا لاحاصل ہے، دشواریاں شخصیت کی تعمیر میں کام آتی ہیں۔
میا دا بزم بر ساحل کہ آں جا
نوائے زندگانی نرم خیز است
بدریا غلط و با موحبش درآويز
حیات جاوداں اندر ستیز است
علامہ اقبال کی فکر سے ہم آہنگ ہو کر ملت اسلامیہ آبرومندانہ زندگی گزار سکتی ہے، ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایسا رہنما ملا جس نے الہامی شاعری اور مثبت فکر کی بدولت ہمارا مستقبل سنوارنے کا بیڑا اٹھایا۔
علامہ اقبال کی شاعری کو سمجھنے اور مقصد تخلیق تک رسائی حاصل کرنے میں ہم کہاں تک بامراد ہوئے ہیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر شخص نہیں دے سکتا۔ ان کے اشعار کی تہ تک پہنچنے کی خاطر قاری کا مکالمہ وسیع اور تاریخ پر گہری نظر کا ہونا لازمی ہے، علامہ اقبال کے ہاں فن شاعری محض ذریعۂ تفریح نہیں بلکہ وہ ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کا وسیلہ قرار پا چکا ہے۔
وہ ابتدا میں داغؔ سے اصلاح لینے پر آمادہ ہوئے مگر یہ تعلق ان کی شاعری پر اثر انداز نہ ہو سکا۔ ان کے تخیل کی فلسفیانہ دقت طرازی اور رنگ و آہنگ کی کرشمہ سازی عام قاری کے فہم و ادراک سے بالاتر ہے، اکثر سطحی طور پر عدم فہمی کے باعث مایوسی کا اظہار کرتے رہے اور جتنا سمجھ سکے وہ بھی حقیقت سے دور ہی رہے، علامہ اقبال خود بھی شاکی رہے کہ ان کا پیغام سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ وہ اپنے عہد میں شاعر فردا ہی کہلائے اور آئندہ زمانے میں جسے عہد موجود کہنا چاہئے، اقبال فہمی کا زمانہ کہا جائے گا مگر ان کی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے اس لئے علامہ کے تخیل کی سرزمین پاکستان میں آباد اولادِ آدم نے فارسی زبان سے رشتہ توڑ کر خود پر ظلم کیا، آج سے پہلے دیہات کے پڑھے لکھے لوگ گلستان سعدی اور بوستان سعدی کے ساتھ مثنوی مولانا روم کے حافظ ہوتے تھے، کسی چوپال میں فراغت کے وقت مثنوی کے اشعار سنائے جاتے مگر آج ہو کا عالم ہے، اب تو فارسی ایک اجنبی زبان بن گئی ہے، حکمرانوں نے فارسی زبان کے خلاف ایسا ماحول بنایا کہ افرادِ نسل نو فارسی کے ساتھ علامہ اقبال کی فارسی شاعری سے بیگانہ وار زندگی گزارتے نظر آئے۔ اس کے برعکس ایران میں علامہ کی فارسی شاعری مقبول ہوئی۔ جب کہ ہمارے ہاں علامہ اقبال کی اردو شاعری سے بھی وہ اشعار حذف کر دیئے گئے، جو عوام کو امیروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی تحریک کا سبب بن سکتے تھے۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
علامہ کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ فلسفہ و فکر کے پیچیدہ اور خشک مسائل کو شعری جامہ پہنا کر قارئین کو لطیف انداز میں اپنا ہمنوا بنانے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے، علامہ اقبال نے مرزا غالب کی طرح اپنے دقیق فلسفے کو مروجہ شاعری کی مختلف اصناف میں آسان بنا کر پیش کیا۔ اس کے باوجود مطالعہ اقبال کے بہت سے گوشوں کی تفہیم میں مشکلات پیش آئیں، انہوں نے موضوعات میں ر نگا رنگی اور وسعت پیدا کی، ہر موضوع کو شعر کے سانچے میں اس طرح ڈھالا گویا کوزے میں دریا بند کر دیا گیا۔ اقبال جہاں ایک طرف فلسفی با مفکر ہیں وہاں دوسری طرف فنکارانہ شاہکار تخلیق کرنے میں اپنا جواب آپ ہیں، وہ ایک نظام فکر لے کر آئے اور ایک نظام حیات کو متعارف بھی کیا۔
انہوں نے اپنے خیالات کے اظہار میں پرانی اصطلاحات کی معنویت بدل کر نئے معانی سے روشناس کرانے میں عملی اقدام کیا جیسے خودی کو مثبت معانی سے ہمکنار کیا یا شاہین کو پرندوں کا درویش اور تصوف یا خانقاہ کو زندگی سے لاتعلقیت کا مظہر بنادیا۔ اقبال کی نگاہ میں لفظ کی حرمت سے زیادہ اس کی مثبت یا منفی قوت ہوتی ہے، علامہ کسی لفظ کو برتنے میں اپنی فنی پختگی کی دھاک بٹھا دیتے ہیں اور ان کی شاعری میں تشبیہات، استعارات اور تلمیحات میں ہماری اجتماعی زندگی منعکس ہوکر نئے امکانات کا مژدئہ جاں فزا اور صدیوں پرانی روایات کو تازگی دے کر طمانیت کا سبب بنتی ہے۔ ان کی فارسی شاعری میں حافظ، عرفی، نظیری اور غالب کا حسن و جمالِ فن قاری پر وجد طاری کر دیتا ہے۔ اقبال کے سوز دروں نے ہمارے اندر سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کیا اور ہمیں اپنے آپ سے آشنا کیا جسے خود آگہی کہنا بجا ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب میں دین فطرت کی تعلیمات کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور سیرت رسول مقبول ﷺ ہے، اقبال نے نہایت صراحت اور وضاحت کے ساتھ ذکر عظمت انسان اس لئے کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کا مرکزی کردار آ دم یا آدمی قرار دیا۔ انسان اس کائنات کی تخلیق کا سبب ہے اسے احسن التقویم فرمایا ہے وہ فرشتوں سے افضل بلکہ مسجود ملائک ہے جس کی تصدیق کتاب الٰہی کرتی ہے، علامہ اقبال کے پیش نظر انسان اور انسان کا عظیم نصب العین ہے۔ وہ اس زمین پر نائب ِ خدا بنا کر بھیجا گیا ہے۔
اس میں صفات الٰہی بطور امانت رکھی گئی ہیں، ہماری اجتماعی زندگی میں ان صفات کو ابھارنے اور اطاعت کے مفہوم کو خیرعمل سے ظاہر کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے، اس طرز زندگی سے خودشناسی کا جوہر اور ارفع مقام کا حصول آدمی کو اپنے خالق کی معرفت کے دستیاب ہونے میں آسانی واندانی مرحمت کرتا ہے، اسی طرح آدمی کے سامنے بلند اور منفرد مقام حاصل کرنے کی خواہش اور تخلیقی کارکردگی کو نمایاں رکھنے کی تڑپ ضروری ہے، اس کی زندگی میں اخلاقی اور روحانی قدروں کی پاسداری نیز ہر لحظہ جستجو اور آگے بڑھنے کا جذبہ موجزن رہنا چاہئے، اسی کا نام عشق ہے اور یہی علامہ اقبال کی شاعری میں وہ صرفِ معتبر ہے جس میں تہ در تہ معانی سمو دیئے گئے ہیں۔
علامہ کو فطرت نے ذوق اظہار کی نعمت سے نوازا لیکن ہم ان کے دل کی تڑپ اور ان گنت اسرار و رموز سے ہم کماحقہ باخبر نہ ہو سکے صرف اہل دل ان کے پیغام یا دردمند اور سوز عشق سے معمور دل کی دھڑکن کو سن سکے، حقیقت یہی ہے کہ سوائے اہل دل کے کون ان حقائق سے باخبر ہو سکایا ان کا متحمل ہو سکا، انہوں نے کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے اور حقیقت مطلقہ تک رسائی حاصل کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔ ان کی شاعری کے جتنے مدارج ہیں انہیں عام قاری سمجھنے سے قاصر ہے مگر ان کا تخلیقی سفر آغاز سے انجام تک نہایت دلچسپ اور گوناگوں مراحل سے گزرتا بلند ترین نصب العین کے حصول کی خاطر جاری و ساری رہا، وہ کائنات کی نیرنگیوں ہر لحظہ بدلتی اور صدائے کن فیکون کے نتیجے میں تخلیق نیا لباس زیب تن کرنے میں اپنے حسن و جمال کا اظہار کر رہی ہے اور مرزا غالب نے ایک بات بہ انداز دگر پیش کی تھی کہ
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
اس راز کو جاننے کے لئے ایک قلب تپاں، چشم بینا اور کلیمی نگاہ درکار ہے، یقیناً علامہ اقبال ان صفات سے بہرہ ور ہیں اور وہ اپنے عظیم مقصد حیات اور کائنات کی حقیقت کے انکشاف اور مالک کائنات پر کمند جنوں پھینکنے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ ہم دم بخود رہ جاتے ہیں۔
در دشت جنون من جبریلؑ زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ