اسلام آباد (رپورٹ،رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کے حوالے سے جاری کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ حصوں کے خلاف دائر کی گئی۔
نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کواپنے دلائل مختصر رکھنے کی ہدایت پر ہونے والی تلخی کی وجہ سے فاضل جج صاحبان آپس میں الجھ پڑے اورجسٹس مقبول باقر کمرہ عدالت سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔
فاضل ججوں کے درمیان تلخ جملوں کے باعث جب ماحول زیادہ خراب ہو اتو بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت میں مختصر وقفہ کرکے معاملہ ٹھنڈا کردیا۔
ججز میں مکالموں کے دوران جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ بندیال صاحب بس بہت ہوگیا، میں نے کبھی جسٹس منیب اختر صاحب کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی، ہمارے پاس وقت کی کمی ہے،جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں تو صرف سوال پوچھنا چاہتا تھا۔
جسٹس بندیال صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا میں سوال کرسکتا ہوں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جسٹس مقبول باقر تو بنچ کے ڈارلنگ ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عامر رحمان کیلئے وقت مقرر کردیں یا دلائل پورے کرنے دیں، بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں چلا جائوں گا، بہت ہوگیا، ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 10 رکنی فل کورٹ لارجر بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ سرینا عیسی ٰکے ہمراہ پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے اپنے گزشتہ روز کے دلائل جاری رکھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ معاملہ آرٹیکل 187میں عدالتی دائرہ اختیار کا نہیں غیر قانونی آرڈر کا ہے، مکمل انصاف دینے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔
وفاقی حکومت نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی ہے، ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے، حکومت صرف کیس کو لٹکانے کی کوشش کررہی ہے، حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس کو لٹکایا جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ سرینا عیسیٰ کا کیس آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا ہے، جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سرینا عیسی ٰنے سماعت نہ ہونے سے متعلق قانونی حوالے نہیں دیئے تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے دلائل پر اعتراض کیا جا رہا ہے، اگر ایسا ہی کرنا ہے تو ہم سے تحریری دلائل لے لئے جائیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دلائل پر اعتراض نہیں ہے، ہمیں آپ کی معاونت چاہئے۔
فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میرے کنڈکٹ پر بات کی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات غیرمناسب تھی۔
جسٹس منظور ملک نے کہا کہ عامر رحمان صاحب آپ اچھے انسان اور وکیل ہیں بات ختم کریں،جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس عدالتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ زیر سماعت مقدمے سے مختلف ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس اکثریتی ججوں نے خارج کر دیا تھا اور دوسری جانب گھر بیٹھی جج کی فیملی کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی، جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ معلوم نہیں ہے کہ ایف بی آرعدالتی حکم کے بغیر کارروائی کرتا یا نہیں؟
ایف بی آر نے تعین کرکے سرینا عیسیٰ کے خلاف رپورٹ دے دی ہے، کوئی ایسا قانون بتائیں کہ خاوند کے خلاف انکوائری بند ہونے کے بعد بیوی کے خلاف شروع ہوجائے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف بی آر میں جو کارروائی ہوئی ہے وہ عدالتی فیصلے کا نتیجہ ہے، اگر ایف بی آرکارروائی نہ کرتا تویہ توہین عدالت ہوتی۔
جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ تبدیل کرنے اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدارتی ریفرنس اے کیخلاف تھا اور کارروائی بی کے خلاف شروع ہوگئی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایف بی آر کو تحقیقا ت کرنے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھاحالانکہ یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا تھا، ہمیں ان نکات پر معاونت فراہم کریں۔
جسٹس مقبول باقر نے مختلف لمبی چوڑی عدالتی نظائر دینے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا ہم نے دوسرے فریق کو بھی بتایا تھا کہ وقت کم ہے، آپ بھی مہربانی فرما کر وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔
جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اپنا وقت لیں، دلائل اپنی مرضی سے دیں، جسٹس مقبول باقر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کہا آپ بیچ میں مداخلت نہ کریں، میں آپ سے سینئر ہوں، اپنے سینئر جج کو ٹوکنے اور بات کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ سینئر کا احترام نہیں ہے، یہاں پر کوئی ریس تو نہیں لگی ہے، جسٹس مقبول باقر نے جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بندیال صاحب بس بہت ہوگیا، میں نے کبھی جسٹس منیب اختر صاحب کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی ہے، ہمارے پاس وقت کی کمی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا میں تو صرف سوال پوچھنا چاہتا تھا، جسٹس مقبول باقر نے کہا میں نے کبھی آپ کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی ہے، جسٹس منیب اختر نے جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں سوال کرسکتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ آپ سوال پوچھیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا ہم نے دوسرے فریق کو چالیس مرتبہ کہا ہے کہ وقت کی کمی ہے، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے، پوری دنیا اس مقدمہ کے تناظر میں سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، اسی دوران جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پھر مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عامر رحمان صاحب آپ بہت معقول انسان ہیں اپنے دلائل جلد مکمل کریں۔
آپ ہمیں عدالتی نظائر کے حوالے نوٹ کرا دیں ہم خود ہی پڑھ لیں گے، وقت بہت کم ہے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ان کی جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عامر رحمان کیلئے وقت مقرر کردیں یا انہیں دلائل پورے کرنے دیں، اگر آپ بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں بنچ سے اٹھ کر چلا جائوں گا، بہت ہوگیا، ہر چیز کی حد ہوتی ہے، جس پرجسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ سماعت کسی دھونس سے نہیں چلے گی، اٹھ کرتو میں بھی جاسکتا ہوں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مناسب ہوگا کہ عدالت 10 منٹ کا وقفہ کرلے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ 10 منٹ کے وقفے سے کیا ہوگا؟ اور وہ اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے، بعد ازاں تمام جج صاحبان بھی اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے اور عدالتی کارروائی میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔
تقریباً دس منٹ کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس لینا ہی کافی ہوتا ہے، روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو موقف دینے سے روک دیں؟
سپریم کورٹ کے لئے یہ حساس ترین کیس ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہے تو معذرت خواہ ہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر تو بنچ کے ڈارلنگ ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوران سماعت بولنے کی کوشش تو جسٹس منظوراحمد ملک نے کہا کہ قاضی صاحب آپ کی بہت مہربانی بیٹھ جائیں، بار بار کارروائی میں مداخلت نہ کریں۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف بی آر نے سرینا عیسی ٰکو مکمل حق سماعت دیا ہے جس کی تفصیل چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ میں موجود ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تو جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے کہا کہ کیا ہم ایف بی آر کی رپورٹ کا جائزہ لے سکتے ہیں کیونکہ وہ رپورٹ کسی اور فورم پر زیر سماعت ہے؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ موقف دینے کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ٹائم مینجمنٹ کیلئے ہمیں بتا دیں کہ آپ کب تک اپنے دلائل مکمل کرلیں گے، جس پر انہوں نے کہا کہ کل آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر بات کروں گا اور کوشش کروں گا کل ہی اپنے دلائل مکمل کرلوں، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت آج (جمعہ) تک ملتوی کردی گئی۔