• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اطہر اقبال

یہ کہاوت ایسے موقع پر کہی جاتی ہے جب کسی ضروری شے کی تلاش ہواور اس کے نتیجے میں معمولی اور بے وقعت چیز برآمد ہو۔برسوں پرانی بات ہے، کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک روزوہ سفر پر گیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد اس نے اپنے تمام وزیر وں اور امیروں کو دربار میں طلب کیا اور ان سے کہا کہ، ’’دریا پر سفر کے دوران میری چھوٹی سی صندوقچی دریا میں گر گئی ہے‘‘۔’’ اس میں ایک قیمتی انگوٹھی ہے، جو میری خاندانی نشانی ہے، لہـذا وہ مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، تم میں سے جو بھی میری صندوقچی تلاش کرکے لائے گا، میں اُسے اپنی آدھی سلطنت انعام میں دے دوں گا‘‘۔ 

تمام وزیر اور امیر بادشاہ کا یہ اعلان سن کرصندوقچی کی تلاش میں دریا کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان میں سے ایک وزیر کو نہ تو بادشاہ کے انعام کا کوئی لالچ تھا نہ ہی آدھی سلطنت کی طمع ۔ وہ دریا کی طرف اس غرض سے گیا کہ کسی بھی طرح بادشاہ کی گم شدہ صندوقچی ڈھونڈھ کر بادشاہ کے حوالے کردے جس میں اس کی خاندانی نشانی انگوٹھی کی صورت میں رکھی ہے۔ 

اس وزیر نے دریا کے کنارے پہنچ کر ایک کشتی کرائے پر لی اور اس پر بیٹھ کر دریا کے بیچ میں گیا۔ وہاںپہنچ کر اس نے بسم اللہ پڑھی اوردریا میں جال ڈال دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے جال باہر نکالا تو اسے ایک مچھلی تڑپتی نظر آئی، جو زیادہ بڑی نہیں تھی ۔

وہ یہ مچھلی لے کر واپس کنارے پر آیا اور گھوڑے پر بیٹھ کر بادشاہ کے محل کی طرف روانہ ہوگیا۔ تمام وزیروںاور امیروں نے اس وزیر کو مچھلی لے جاتے ہوئے دیکھا تو ہنستے ہوئے اس سے کہا، ’’ محترم وزیر صاحب، کیا اس چھوٹی سی مچھلی نے بادشاہ کی اتنی بڑی صندوقچی نگلی ہے، جو اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جارہے ہو‘‘۔ وزیر نے اُن کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور گھوڑا دوڑاتا ہوا سیدھا محل میں پہنچ کر بادشاہ کے حضور حاضر ہوکر اس کی خدمت میںمذکورہ مچھلی پیش کی۔ 

بادشاہ مچھلی دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے وزیر سے پوچھا ، ’’یہ تو چھوٹی سی مچھلی ہے، تم تو صندوقچی تلاش کرنے گئے تھے، وہ کہاں ہے‘‘؟۔ وزیر نے جواب دیا، ’’بادشاہ سلامت ، میں نے اللہ کا نام لے کر دریا میں جال ڈالا تھا، بہت دیر بعد صرف یہی مچھلی جال میں آئی‘‘۔ 

’’مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے کہ آپ کی صندوقچی اسی کے پیٹ میں ہوگی۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے خنجر نکالا اور اس کی مدد سےاس نے جب مچھلی کاپیٹ چاک کیا تو اس میں سے بادشاہ کی گمشدہ صندوقچی برآمد ہوئی، جس میں اس کی انگوٹھی بھی موجود تھی۔ خاندانی نشانی پاکر بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے وزیر کو اپنے اعلان کے مطابق آدھی سلطنت انعام میں دینا چاہی تو اُس نے انکار کردیا اور بادشاہ سے کہا، ’’ حضور والا، میں تو آپ کی خاندانی نشانی کی تلاش میں دریا پر گیا تھا، مجھے انعام کا کوئی لالچ نہیں، آپ کی سلطنت آپ ہی کو مبارک رہے‘‘۔

کچھ دیر بعد دیگر وزیر اور امراء بھی بڑی اور بھاری جسامت کی مچھلیاںلے کر بادشاہ کے دربار میں پہنچے۔ بادشاہ نے اپنے مصاحبین سے جب ان کے پیٹ چاک کروائے تو ان تمام کے شکم سے سوائے چھوٹے بڑے کنکروں یا گھاس پھوس کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ اس پر بادشاہ نے ہنستےہوئے کہا کہ’’ تم سب آدھی سلطنت کے لالچ میں صندوقچی تلاش کرنے گئے تھے، وہاں سے لحیم شحیم مچھلیاں پکڑ کر لائے، لیکن ان میں کیا نکلا ، چھوٹے چھوٹے کنکر، یہ تو وہی بات ہوئی، ’’کھودا پہاڑ، نکلا چوہا‘‘۔ 

تم سے پہلے میرے وزیر نے مجھے جو چھوٹی سی دبلی پتلی مچھلی لاکر دی تھی، میری صندوقچی اور اس میں رکھی انگوٹھی اسی میں سے نکلی۔ بادشاہ کی بات سن کر تمام وزیروں نے ایک دوسرے کو شرمندہ نظروں سے دیکھا جب کہ بادشاہ ’’کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا ‘‘ والی کہاوت کو بار بار دہراتے ہوئے ہنستا رہا۔

تازہ ترین