• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے قدیم باشندے ہنرمند تھے۔وہ سادگی پسند اور صنعت و حرفت میںکمال درجہ مہارت رکھتے تھے۔ کمہار، جولاہے، سنار، جوہری اورنقش و نگار بنانے والوں کا کاروبار عروج پر تھا۔سندھ میں مختلف مقامات پر کھدائی کے دوران ظروف سازی کے پیشے میں ان کی مہارت کے بے شمار نمونے دستیاب ہوئے ۔موئن جودڑو اور ہڑپہ کی کوزہ گری میں زبردست مماثلت ہے۔ اگر ان دونوں جگہوں کی بازیاب ہونے والی ٹھیکریوں کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو یہ امتیاز کرنا دشوار ہوگا کہ کون سا ٹکڑا کس مقام کا ہے۔ ان ٹھیکریوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ظروف دریائے سندھ کی چکنی مٹی سے بنائے گئے ہیں جن میں چونے اور ابرق کے اجزا بھی شامل ہیں۔ 

یہ برتن کمہار چاک پر بناتے تھے۔ بعض برتن ہاتھ کے بنے ہوئے بھی ہیں۔ چاک پر برتنوں کو بنانے کے بعد’’ اورچ‘‘ جولوہے اور مٹی کی آمیزش سے بنایا ہوا ایک قسم کا مسالہ ہوتا ہے، رنگائی کی جاتی تھی جس کے بعد برتن کی سطح چکنی کرکے برش سے نقاشی کی جاتی تھی۔ یہ نقش و نگار گہرے سیاہ رنگ کےیا سیاہی مائل سرخ مسالے سے بنائے جاتے تھے۔ 

پھولوں کی پتیوں میں نہایت احتیاط سے متوازن خطوط کھینچے گئے ہیں،جو دیدہ زیب اور دلکش ہیں۔بعض نقوش میں طلوع آفتاب کے منظر کو گول کنگھے کی طرز پر بنایا گیا ہے ، جس کے دندانے باہر کی جانب ہیں، جوسورج کی کرنوں کو واضح کرتے ہیں۔بہت سے برتنوں پرموذی جانوروں، چڑیا، سانپ اور مچھلیوں کی تصاویر بھی منقش کی گئی ہیں۔ عام طور پر جانوروں کو اپنے فطری ماحول میں دکھایا گیا ہے۔ 

مثلاً ایک برتن پر دو چڑیاںدرختوں کے درمیان پھدکتی دکھائی گئی ہیں۔ اسی طرح چند برتنوں پر ہرن اور پہاڑی بکرے کی تصویریں منقش ہیں۔ بیشتربرتنوں پر مثلث نما نقاشی اور دندانے دار نقوش بھی ملے ہیں۔ان برتنوں پر سرخ رنگ کی پالش نہ صرف ظروف کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی تھی، بلکہ اس سے برتنوں کے مسامات بھی بند ہوجاتے تھےاور ان سے پانی رسنے کا امکان باقی نہ رہتا تھا۔ بعض برتنوں میں سفیدی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

عام طور پر اس قسم کے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں اور جن پر ایک دوسرے کو تقسیم کرتے ہوئے دائروں اور درختوں کی پتیوں کی نقاشی کی گئی ہے۔ نقشین برتن عام طور پرقدیم آثار کی نچلی سطح میں زیادہ ملےہیں۔ جوں جوں ہم بعد کے عہد کی طرف بڑھتے ہیں، ظروف سادہ ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ برتن خاکستری رنگ کی مٹی سے بھی بنائے گئے ہیں، جن پر سیاہ پالش کی گئی ہے۔ اس قسم کے ظروف بھی قدیم شہر وں کے کھنڈرات سے ملے ہیں، لیکن ان کا عہد ،وادی سندھ کی تہذیب سے قبل کا ہے۔

برتنوں کو رکھنے، اٹھانے اور پکڑنے کے لئے دستے اور کنڈے بہت کم لگائے گئے ہیں، اور اگر کسی میں لگائے بھی گئے ہیں تو چپٹے سوراخ اور کان کی شکل کے ہیں، جن کو الگ بناکر برتنوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔ان برتنوں کے علاوہ اور بہت سی چیزیں بھی بنائی جاتی تھیں۔ مثلاً مٹی کے چوہے دان،پنجرہ پہیے، سوت کاتنے کے تکلے، چوڑیاں، دیوی دیوتائوں، انسانوں اور جانوروں کے مجسمے بھی برآمد ہوئےہیں۔

موئن جودڑو کے کاریگر سونا، چاندی، رانگا، تانبا اور کانسی اور دیگر دھاتوں کے استعمال سے بخوبی واقف تھے۔ قدیم آثار سے تانبے اور کانسی کی بنی ہوئی لاتعداد چیزیں ملی ہیں، جو گھریلو استعمال میں آتی تھیں۔ مثلاً برتن، کلہاڑیاں، خنجر، چاقو، برچھے، کٹار، درانتی، چوڑیاں، انگوٹھیاں، کانوں کے آویزے وغیرہ شامل ہیں۔

اس دور کے باسی اسلحہ سازی کے فن میں بھی ماہر تھے، انہوں نے جو او زار اور ہتھیاربنائے وہ زیادہ تر پتھر، تانبے اور کانسی سے تیار کیے گئے تھے۔ یہاں سے نیزے کے پھل، کٹاری، بھالے، کلہاڑیاں، کدال، تیر و کمان، برچھے، تیشے، گرز، کثیر تعداد میںدستیاب ہوئے ہیں۔ کھدائی کے دوران ایک ایسی کدال ملی ہے جس میں دستہ ڈالنے کا سوراخ موجود ہے۔ یہ کدال اس لئے اہم ہے کہ دستے ڈالنے والے سوراخ والے اوزار موئن جودڑو میں بہت کم دریافت ہوئے ہیں۔ اس قسم کی ایک کدال کوہ قاف میں دریائے کرمان کے طاس سے بھی دریافت ہوئی تھی۔سندھ کے کھنڈرات سے برآمد ہونے والے نیزے اس قدر پتلے اور نازک ہیں کہ اگر ان پر زور دیا جائے تو یہ مڑ جاتے ہیں۔ 

اسی وجہ سے ان میں ایک نالی بنائی گئی ہے، امکان ہے کہ تار یا لکڑی ڈال کر ان کو مضبوط کردیا جاتا ہوگا۔ تیررکھنے والے ترکش کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کانسی یا تانبے کے تیروں سے کاٹ کر بنائے گئے تھے اور ، شاید قدیم باشندے کمان بنانے میں پوری مہارت رکھتے ہوں گے۔ اوزاروں میں کانسی کی بنی ہوئی آری ملی ہے جس میں لکڑی کا ایک دستہ بھی لگا ہوا تھا۔ ان ہتھیاروں اور اوزاروں کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اکثر پر نامعلوم زبان میں تحریر کندہ ہیں، جن سے قیاس ہوتا ہے کہ یہ شاید گنتی کے اعداد ہوں گے، لیکن وثوق سے اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا، جب تک اُس دور کی زبان سمجھ میں نہ آجائے۔

وادی سندھ کے باشندے مختلف دھاتوں کے ذریعے مجسمہ سازی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ چاندی کا بنا ہوا رقاصہ کا ایک مجسمہ ان کی فن کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ جانوروں کے مجسموں میں چھوٹے سینگوں والے بیل کا مجسمہ ان کی مہارت کا اعلیٰ نمونہ ہے،لیکن انہیں سنگ تراشی میں بھی کمال حاصل تھا۔سندھ دھرتی سے بڑی تعداد میں مہریں بھی دستیاب ہوئی ہیں جوکسی دھات سے بنائی گئی ہیں اور ڈیڑھ مربع انچ سے لے کر ڈھائی مربع انچ تک مختلف سائزوں میں بنی ہیں۔ یہ مہریں مربع شکل میں ہیں، ان پر جانوروں کی تصویریں اور نامعلوم زبان میں تحریریں کندہ ہے۔

سندھ کے قدیم باشندے دیگرصنعتوں میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ سوزن کاری، سیپ سے بیل بوٹے بنانے کے بھی کاریگر تھے۔ سیپ کے ٹکڑوں کو باریک آری سے کاٹ کر پانسہ، چوڑیاں، بالوں کے کلپ اور اسی قسم کی دوسری اشیاء بنائی جاتی تھیں۔ زردوزی اور کشیدہ کاری کے کام سے بھی واقف تھے۔ یہ لوگ قیمتی پتھروں، سونے چاندی اور مٹی کے منکے بنانے میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ زیادہ تر منکے عقیق، سنگ سلیمان اور سنگ یشب سے بنائے جاتے تھے۔ یہاں سے ایسے ہار اور مالائیں بھی دستیاب ہوئی ہیں، جن کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفید اور نیلے مسالے سے بھی منکے بنایا کرتے تھے۔ موئن جودڑو سے سونے کے بنے ہوئے لاتعداد سکے برآمد ہوئے ہیں، جن میں چند گول چپٹی ٹکسوں جیسی شکل کے بنے ہوئے ہیں۔ چینی کے منکے بھی بکثرت ملے ہیں، جن میں 35منکے بہت اہم ہیں۔

ان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سندھ کے باشندے صنعتی اعتبار سے مثالی حیثیت رکھتے تھے۔ اور اپنی فنکاری اور ہنرمندی میں بام عروج پر تھے۔

تازہ ترین