’’اردو کا مولد سندھ ہے ‘‘یہ نظریہ سب سے پہلے سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’’نقوش سلیمانی‘‘ میں پیش کیا۔اردو کے بارے میں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی آمد کے بعد جب ان کا میل جول مقامی لوگوں سے بڑھا تو فاتح اور مفتوح کی زبانوں نے مل کر ایک نئی زبان کا روپ دھارا جو اردو کہلائی۔ غالباً اسی نظریے کی بنیاد پر انہوں نے سندھ کو اردو کی جنم بھومی قرار دیا ،کیوں کہ مسلمان سب سے پہلے سندھ میں داخل ہوئے ۔وہ عربی بولتے ہوئے آئے تھے ، انہوں نے نہ صرف سندھ میں اپنی حکومت قائم کی بلکہ مستقل سکونت اختیار کر لی۔
اردو پر یہ الزام ہے کہ اصل ہندی ہونے کے باوجود یہ حجازی رہی۔ اس نے نہ صرف عربی اور فارسی سے اپنا دامن بھرا بلکہ سنسکرت،ترکی،انگریزی اور کسی حد تک فرانسیسی اور پرتگیزی زبانوں سے بھی اپنے ذخیرہ و الفاظ کے خزانے کو مالا مال کیا۔ لیکن یہ الزام تو انگریزی پر بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی اکثر اصطلاحات لاطینی ویونانی زبانوں سے مستعار ہیں اور کئی زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف اردو اور انگریزی بلکہ دنیا کی بیشتر زبانیں اس بارٹر سسٹم سے متاثر ہیں۔
اردو کی طرح سندھی بھی ایک مخلوط اور مرکب زبان ہے ’’آفتاب ادب‘‘ کے مصنف محمد سہوانی لکھتے ہیں۔ ’’یہ حقیقت ہے کہ موجودہ سندھی، سنسکرت، عربی، فارسی اور کسی قدر انگریزی کی ترکیب سے ایجاد ہوئی ہے۔ ’’اردو اور سندھی دونوں زبانوں کا تعلق ہند آریائی خاندان سے ہے اور دونوں عربی اور فارسی کے سایہ عاطفت میں پلی بڑھی ہیں۔ اردو اور سندھی حروف تہجی میں ث، ح، خ، ز، ص، ض ط، ظ، ع اور ق کی موجودگی عربی اثرات کا نتیجہ ہے،۔اردو اور سندھی کا رسم الخط بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ایک ہی ہے۔ سندھی کا خط نسخ تو خالص عربی ہے۔ اردو کا خط نستعلیق جو فارسی کہلاتا ہے بنیادی طور پر عربی ہے، برصغیر پاک و ہند میں یہی دو زبانیں ایسی ہیں جو ہند آریائی ہوتے ہوئے بھی عربی رسم الخط اپنائے ہوئے ہیں۔
عربوں کے بعد محمود غزنوی سے لے کر ناصر الدین محمود تک سندھ کے حکمرانوں کی زبان فارسی رہی ۔ارغونوں کے دور حکومت سے سندھ میں فارسی کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا جو انگریزوں کے دور تک جاری رہا۔فارسی کے زیر اثر ،خ، ژ، غ اور ف کی شستہ آوازیں کھ، ج، گ اور پھ کے مقابلے میں فارسی ہی کا عطیہ ہیں، جس سے مقامی زبانوں میں لطافت پیدا ہوئی اور ہندی کی بہت سی کرخت اور ثقیل آوازوں جیسے ڑ، گھ، ڈ، ڈھ، وغیرہ کا استعمال کم ہوا، یہ اثر اردو پر نسبتاً زیادہ اور سندھی پر قدرے کم پڑا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عربی اور فارسی کے اثرات اردو اور سندھی دونوں نے قبول کئے جس کی وجہ سے دونوں زبانوں میں لسانی اشتراک نظر آتا ہے۔
جدید تحقیق کی رو سے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر، قلی قطب شاہ ہے۔ جس کا زمانہ حکومت 988ہجری سے 1020ہجری ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب میر فاضل بکھری سندھ میں اردو شاعری کا چراغ روشن کر رہے تھے۔ اس کی شہادت میر فاضل بکھری کے بھائی فرید بکھری کی کتاب ’’ذخیرۃ الخوانین ‘‘ سے بھی ملتی ہے۔ ’’مقالات الشعرا ‘‘ سندھ کے قدیم شعرا کا تذکرہ ہے۔اس تذکرے سے ہمیں سندھ کے فارسی شعرا کے اردو کلام کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ انہی میں سے سید ضیا الدین ضیا ٹھٹوی بھی ہیں جو ولی دکنی کے عم عصر ہیں۔ ان شہادتوں سے اردو اور سندھ کے لسانی روابط کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اردو اور سندھی زبانوںمیں پائے جانے والے مشترک الفاظ کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ الفاظ بھی دونوں زبانوں کے باہمی ربط کو ظاہر کرتے ہیں جیسے ’’گورا چٹا‘‘ ، ’’بھلا چنگا‘‘، سندھی اور اردو زبانوں میں رائج ہیں۔الفاظ ہی نہیں محاورات اور ضرب المثال بھی دونوں زبانوں میں مشترکہ اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
آپ سکھی تو جگ سکھی (اردو)
توں سکھیو تہ جگ سکھیو ( سندھی)
اونٹ کے منہ میں زیرہ (اردو)
اٹھ جئے مونھ میں جیرو( سندھی)
آٹے میں نمک کے برابر (اردو)
آٹے میں لونڑ، برابر(سندھی)
قیام پاکستان سے قبل اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد سندھ میں موجود تھی۔ گریرسن نے اپنے لسانی جائزے میں سندھ میں اردو بولنے والوںکی تعداد 18009بتائی ہے۔ یقیناً بعد کے زمانے میں یہ تعداد بڑھی ہو گی۔ قیام پاکستان کے بعدہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کی اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی، جنہوں نے سندھ کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ اس طرح سندھی اور اردو بولنے والوں میں قربت کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔اردو نے رابطے کی زبان کا فریضہ انجام دیا، سندھ کے لوگوں نے کبھی عام مقامات اور اردو بولنے میں جھجک محسوس نہیں کی۔
سندھ کے اردو بولنے والوں خصوصاً تاجر طبقے اور دیہی علاقوں میں آباد ہونے والوں نے اردو کےساتھ ساتھ سندھی زبان کا استعمال شروع کیا۔ اس میل جول کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں زبانوں نے ایک دوسرے کے اثرات قبول کرنا شروع کئے، نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ ادبی سطح پر بھی لسانی روابط میں اضافہ ہوا اور اردو سندھی مشاعروں کی بنیاد پڑی۔ آہستہ آہستہ ایسے ادیب و شاعر بھی منظر عام پر آنے لگے جنہوں نے دونوں زبانوں کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا اور اسے خوب نبھایا۔
عوامی سطح پر پیاز اور بصر، لہسن، اور تھوم ،آلو اور پٹاٹا کے الفاظ مشترک ذخیرے کی شکل اختیار کر گئے ہیں،جنہیں سندھی اور اردوبولنے والے بلا تکلف استعمال کرتے ہیں، جیسے یہ ان کی اپنی زبان کے الفاظ ہوں۔ ادبی میدان میں بھی جب کوئی سندھی شاعر یا ادیب اردو میں لکھتا ہے تو شعوری یا غیر شعوری طور پر سندھی الفاظ اور تراکیب تحریر میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح اردو کے شاعر یا ادیب اپنی تخلیقات میں سندھی کے الفاظ اور تراکیب استعمال کرتے ہیں۔
اردو سندھی کے لسانی اشتراک عمل میں مزید اضافہ ہو گا، اور دونوں زبانیں ایک دوسرے سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی کے راستے پر گامزن رہیں گی۔