• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایاز قیصر

ایک دفعہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے کسی میراثی سےخوش ہو کرانعام و اکرام ،خلعت کے علاوہ اسےایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجا نے تو بڑی فیاضی دکھائی تھی ۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اس کی خوراک کا بندوبست کیسے کروں۔ اسے روز دانہ، چارہ کہاں سے کھلاؤں گا اوراس کی دیکھ بھال و خدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ سوچ بچار کے بعد میراثی نے ہاتھی کے گلے میں ایک ڈھول باندھ کر اسے کھلا چھوڑ دیا۔ہاتھی جس طرح ہر روز قلعے کی ڈیوڑھی پر حاضر ہوتا تھا، کھلنے کے بعد سیدھا وہاںجا پہنچا۔ لوگوں نے جو یہ نیا تماشا دیکھا کہ ہاتھی چھاج سے کان ہلاتا ہے اور ڈھولک خود بخود بجنے لگتی ہے تو اس کے گرد بھیڑ لگ گئی۔

تھوڑی دیر میں یہ غل غپاڑہ سن کر مہاراجا نے بھی کھڑکی سے سر نکالا اور ہاتھی کو پہچانتے ہی میراثی کوبلوا کرغصے سے پوچھا۔ ’’تم نے یہ کیا سوانگ رچارکھا ہے۔‘‘ میراثی نے عرض کیا۔ ’’مہاراج! حضور جانتے ہیں، ہم غریب اپنا پیٹ تو پال نہیں سکتے، بھلا ہاتھی کا پیٹ کہاں سے بھریں گے؟ اس لیے جو ہنرمیں خود جانتا ہوں،وہی اسے بتا دیا ہےتا کہ ڈھولک بجابجا کر مانگتا کھاتا پھرے۔‘‘ یہ سن کر مہاراج ہنس پڑے۔ ہاتھی کو فیل خانے بھجوا دیا اور میراثی کو خزانے سے اس کی قیمت دلوادی۔

تازہ ترین